Sunday 17 July 2016

AASHUR KA ROZA TAHQIQI JAIZA

AASHUR KA ROZA TAHQIQI JAIZA

                         روزے عاشورا کا روزہ تحقیقی جائزہ

                      

                                                    AASHUR KA ROZA TAHQIQI JAIZA 

            TRANSLATED BY;-ZIAUL AFAZIL MOLANA SYED GHAFIR HASAN CHHOLSI

                 Click here to Download this Book

                      Click here for Online Reading

Posted by:- PAYAM-E-ISLAM Foundation Chholas Sadat

Wednesday 13 July 2016

جنت البقیع، مختصرجائزہ اور مظلومیت: ضیاء الافاضل مولانا سید غا فر رضوی

غافر! اُدھر ھے گنبدِ خضرا، مگر اِدھر
ویراں پڑی ہے دھوپ میں تربت بتول کی
سید غافر رضوی چھولسی
جنت البقیع، مختصرجائزہ اور مظلومیت: ضیاء الافاضل مولانا سید غا فر رضوی
جنت البقیع: مختصرجائزہ اور مظلومیت
ضیاء الافاضل مولانا سید غا فر رضوی
٨ شوال المکرم ١٣٤٤ھجری وہ دردناک تاریخ ہے جس میں آل سعود کے حکم اور درباری مفتیوں کے فتوے کے تحت مدینہ منورہ میں واقع جنت البقیع نامی قبرستان میں شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا اور آپ کی ذریت طاہرہ سے چار ائمہ معصومین کے مزارات مقدسہ  کو منہدم کر دیا گیا۔رسوۖل اور بنت رسوۖل کو قبروں میں بھی سکون سے نہیں رہنے دیا گیا۔ ہمارے معاشرہ میں یہ رائج ہے کہ اگر کسی سے دشمنی ہوتی ہے تو وہ اس کی موت کے ساتھ ساتھ ختم ہوجاتی ہے لیکن نہ جانے ظالموں کو آل رسوۖل سے کس قدر بغض وکینہ تھا کہ بعد شہادت بھی سکون سے نہ رہنے دیا!۔ پیغمبراسلام  ۖ کا جوارمبارک، جس کی شان یہ ہونی چاہئے کہ نظارہ کرنے والے لوگ ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہ جائیں، اس کا یہ عالم ہے کہ مومنین ٹکٹکی باندھ کر ضرور دیکھتے ہیں لیکن ان کی ٹکٹکی کے ساتھ ہچکیاں بھی بندھی ہوتی ہیں۔ افسوس کہ دشمنوں نے حضوراکرۖم کا بھی ذرّہ برابر پاس ولحاظ نہیں کیا! اگرانھیں آل رسوۖل سے کینہ کا اظہار کرنا تھا تو کم سے کم اتنا سوچ لیتے کہ اگرہم اپنے دلوں کا کینہ نکالیں گے تو جوار رسوۖل کی بے حرمتی ہوگی! لیکن انھوں نے نہ تو خداکا خوف کیا نہ ہی رسوۖل کا پاس ولحاظ، بلکہ اپنے شیطانی ارداوںکے ہمراہ آگے بڑھے اور'' حضوۖر کا جوار،کردیامسمار''۔
جنت البقیع کا مختصر تعارف:لغوی اعتبار سے بقیع کے معنی ''ہرے بھرے درختوں کا باغ'' ہے، یہ مدینہ میں ایک قبرستان ہے، اس قبرستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقبرہ صدر اسلام سے نہایت ہی محترم مقام رکھتا تھا ۔ حضرت رسول خدۖا نے جب مدینہ منورہ ہجرت کی تو قبرستان بقیع مسلمانوں کا اکلوتا قبرستان تھا اور ہجرت سے پہلے مدینہ منورہ کے مسلمان اپنے مردوں کو ''بنی حرام''اور''بنی سالم''کے مقبروں میں ہی دفناتے تھے ۔ اور کبھی کبھی تو اپنے ہی گھروں میں ہی دفن کردیاکرتے تھے، اور ہجرت کے بعد رسول خدا حضرت محمد مصطفےٰۖ کے حکم سے بقیع کہ جس کا نام ''بقیع الغرقد''بھی ہے مقبرہ کیلئے مخصوص ہو گیا۔جنت البقیع ہر اعتبار سے اہم اور مقدس ہے ۔اس قبرستان  کاآغاز تاریخی شواہد کے پیش نظر ٣ شعبان ٣.ھ کو رسول خدۖا کے مخلص صحابی اور حضرت علی کے حقیقی جانثار''عثمان بن مظعون'' کے دفن سے ہوا ۔ اس کے بعد یہاں آنحضرۖت کے فرزند ارجمندحضرت ابراہیم دفن ہوئے ۔ حضرت رسول خدۖانے جنگ احد کے بعض شہدا کو بھی جنت البقیع میں دفن کیا ۔ اس کے علاوہ مکتب محمد وآل محمد کے پیروکاروں کیلئے بقیع کے سے اسلامی اور ایمانی وابستگی ہے کیونکہ جناب فاطمہ زہرا کے علاوہ یہا ں پر چار معصوم اماموں( دوسرے امام حضرت حسن بن علی علیہما السلام ، چوتھے امام حضرت علی بن حسین زین العابدین علیہما السلام ، پانچویں امام حضرت محمد بن علی الباقر علیہما السلام اور چھٹے امام حضرت جعفر بن محمد صادق علیہما السلام )کا مدفن ہے ۔ آنحضرتۖکے دوسرے رشتہ دار صفیہ ،عاتکہ اور فاطمہ بنت اسدبھی اسی قبرستان میں دفن ہیں ،امت مسلمہ کے تیسرے خلیفہ ''عثمان بن عفان'' جنت البقیع سے ملحق باہر دفن ہوئے تھے لیکن بعد میں اس کی توسیع میں ان کی قبر بھی بقیع کا حصہ بن گئی۔ بقیع میں دفن ہونے والوں کو آنحضرۖت خصوصی دعا ئوںمیں یاد فرمایاکرتے تھے، اس طرح بقیع کا قبرستان مسلمانوں کے لئے ایک تاریخی امتیاز و تقدس کا مقام بن گیا۔٧.ھمیں عمر بن جبیر نے اپنے مدینہ کے سفر نامہ میں جنت البقیع میں مختلف قبور پر تعمیر شدہ قبوں اور گنبدوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں حضرت ابراہیم فرزند محمد مصطفےٰۖ،عقیل ابن ابی طالب ،عبداللہ بن جعفر طیار، امہات المومنین، عباس ابن عبدالمطلبکی قبور شامل ہیں۔ قبرستان کے دوسرے حصہ میں حضرت امام حسن کی قبر اور عباس ابن عبدالمطلب کی قبر کے پیچھے بیت الحزن نامی حجرہ ہے جہاں جناب سیدہ اپنے والد پر گریہ فرمایا کرتی تھیں۔ تقریبا ًایک صدی بعد ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامہ میں جو بقیع کا خاکہ بنایا ہے وہ اس سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے اور سیاحوں اور سفرناموں سے تاریخ اسلام کے آثار قدیمہ کی حفاظت اور موجودگی کا پتہ ملتا ہے از جملہ جنت البقیع کہ جس کی دور وہابیت تک حفاظت کی جاتی تھی اور قبروں پر کتیبہ لکھے پڑے تھے جس میں صاحب قبر کے نام ثبت تھے، وہابیوں نے سب محو کردیا۔یہاں تک کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی قبروں پر جو روضے تعمیر تھے ان کو بھی مسمار کردیا ۔جنت البقیع کے آثار کے بارے میں مصرکے ''محمد لبیب مصری''نامی شخصیت کے سفر نامے میں بھی ملتا ہے جنہوں نے١٣٢٧.ھ میں سعودی عرب کا سفر کیا تھا۔ وہ اپنے سفرنامے میں جنت البقیع کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:جنت البقیع میں''قبہ البین''نامی معروف گنبد ہے جہاں پر ایک حجرہ ہے جس میں ایک گڑھا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں پر پیغمبر خدۖاکے دندان مبارک گرے ہیں ۔ اور قبہ کے اندر امام حسن کی ضریح مبارک ہے جوا سٹیل کی بنی ہوئی ہے، اس پر فارسی خطاطی بھی ہے، میرے خیال سے غیر عرب شیعوں کے آثار ہوں گے ۔سلطنت عثمانی نے بھی مکہ اور مدینہ کی رونق میں اضافہ کیا اور مقامات مقدسہ کے فن تعمیر اور زیبائش میںاضافہ کیا اور ١٨٧٨.ء کے دوران دو انگریزی سیاحوں نے بھیس بدل کر ان مقامات کا دورہ کیا اور مدینہ کو استنبول کے مشابہ ایک خوبصورت شہر قرار دیا۔ (www.shianews.com) اس طرح گزشتہ ٢١ صدیوں تک جنت البقیع کو ایک قابل احترام جگہ کے نام سے پہچانا جاتا تھاجو وقتاً فوقتاً تعمیر کے مراحل سے گزرتی رہی۔عالمِ اسلام میں افراتفری کے متذکرہ تاریخی عوامل نے عبدالعزیز ابن سعود کو حجاز پر پیش قدمی کا موقع فراہم کردیا اور تمام یقین دہانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جنوری ١٩٦٣.ء میں سلطان ابن سعود نے حجاز پر اپنی حاکمیت کا اعلان کردیا۔ وہابیت جو ریاستی مذہب بن گئی تھی بزور شمشیر اہل حجاز پر تھوپی جارہی تھی، سعودی حملہ آور جب مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے جنت البقیع اور ہروہ مسجد جوان کے راستہ میں آئی اس کو منہدم کردیا اور سوائے روضہ نبوی کے کسی قبر پر قبہ باقی نہ رہا۔آثار ڈھائے گئے اکثر قبروں کے تعویض اوران کی تختیوںکو  توڑ دیا گیا ۔انہدام جنت البقیع کی خبر سے عالم اسلام میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی، ساری دنیا کے مسلمانوں نے احتجاجی جلسے کئے جن میں سعودی جرائم کی تفصیل پیش کی گئی۔ کئی سال تک عراق، شام اور مصر سے حج اور دیگر امور کے لئے آنے والے زائرین پر پابندی عائد کردی گئی اور کہا گیاکہ اگر وہ وہابیت قبول کریں گے تو زیارت کرسکیں گے ورنہ ان کو نکال کر باہر کردیا جائیگا۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان، وہابیوں کے مظالم سے تنگ آکر مکہ اور مدینہ چھوڑ نے پر مجبور ہو گئے۔ مسلمانوں کے مسلسل احتجاج پر سعودی حکمرانوں نے مزارات مقدسہ کی تعمیر کی یقین دہانی کرائی لیکنوہ وعدہ آج تک پورا نہ ہوسکا۔ اس ضمن میں تحریک خلافت کمیٹی کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی۔ مسلکی اختلافات کی وجہ سے خلافت کمیٹی کوئی مضبوط موقف نہیں اختیار کرسکی اور یوں یہ کمیٹی پاش پاش ہو گئی اور یہ معاملہ ختم ہوگیا ۔
انہدام جنت البقیع کا ماجرا:ابن قیم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :'' جو تعمیرات قبور پر بنائی گئی ہیں انہیں منہدم کرنا واجب ہے اور قبر پر حتی ایک دن کیلئے آثار کا باقی رکھنا جائز نہیں ہے۔ جب سعودیوں نے١٣٤٣.ھ میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر تسلط حاصل کیا انہوں نے ''بقیع'' اور پیغمبراکرۖم کے اصحاب منتجبین کے آثارکو مسمار کرنے کا سلسلہ شروع کیا؛ جس کا آغاز٨شوال ١٣٤٣.ھمطابق مئی١٩٢٥.ء کو ہوا، جو کہ آج بھی جاری ہے ۔جب آل سعود کے حکام نے مکہ و مدینہ کے اطراف کو پوری طرح اپنے تحت  تسلط لے لیا تو انھوں نے اہلبیت رسوۖل سے اپنی دشمنی کے اظہار کے لئے جنت البقیع نامی قبرستان کو منہدم کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا۔ اس کے لئے انھوں نے قاضی القضاة سلیمان بن بلیہد کو مدینہ روانہ کیا تا کہ وہ وہاں کے مفتیوں سے اپنی مرضی کے فتوے حاصل کرے اور جنت البقیع کو شہید کرنے کا راستہ ہموار کرے،  اہلبیت اطہار سے بغض و دشمنی کی آگ میں جلنے والے درباری مفتیوں نے جنت البقیع کو منہدم کرنے کا فتوی دے دیا اور آل سعودکے سرکاری کارندوں نے سرکار دو عالم کی دختر گرامی حضرت فاطمہ زہر ا اور ان کے چار معصوم فرزندوں کے روضہ اطہر کو منہدم کر دیا اوراس انہدام نے صرف جناب فاطمہ زہرا  اور آپ کے اردگرد مدفون ائمہ اطہار کے مزارات مقدسہ کو ہی مسمار نہیں کیا بلکہ اس انہدام نے قلب رسول کو پارہ پارہ کردیا اور اہل بیت رسوۖل پر غم واندوہ کا ایک عظیم پہاڑ ڈھایا گیا، جن خبیثوں نے کل پہلوئے فاطمہ زہرا کو شکستہ کیا تھا ان ہی کی ناپاک نسلیں آگے بڑھیں اور اس فعل حرام کی مرتکب ہوئیںچونکہ یہ لوگ شقی القلب ہیں لہٰذاان کے دلوں پر خداورسوۖل کے احکام وفرامین کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے یہی سبب ہے کہ ایک کے بعد ایک، عظیم سے عظیم جنایت کے مرتکب ہوتے چلے جارہے ہیں اور ان کو ہوش نہیں آرہا ہے کہ یہ کس ڈگرپر چل پڑے ہیں، کل جب میدان محشر سجایاجائے گا اور فاطمہ زہرا کے سامنے ان کے دشمنوں کو بلاجائے گا تو یہ کیا جواب دیںگے! اگر رسول خدۖا نے یہ سوال کرلیا کہ میری معصوم ذریت نے تمہاراکیا بگاڑا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا تو یہ لوگ کیا کہیں گے!؟ لیکن انھیں روز محشر کی کوئی فکر نہیں ہے بلکہ قرآنی آیات کے پیش نظر یہ کفار کا وہ گروہ ہے جس کو قیامت ومعاد اور آخرت پر کسی قسم کا اعتقاد نہیں ہے اور ان کا تمام ہمّ وغم صرف دنیاوی لذتوں کے حصول پر موقوف ہے۔
انہدام جنت البقیع کے بعد:  اس دلخراش واقعہ کے بعد عالم اسلام میں غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی اور بین الاقوامی سطح پر روضہ اطہر کی دوبارہ تعمیر کی تحریک چلائی گئی مگرجن وہابیوں کو سامراجی طاقتوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے انھوں نے ابھی تک عالم اسلام کے اس مطالبہ کو عملی جامہ نہیں پہنایا! ۔جنت البقیع کے انہدام کے بعد تمام شیعہ سنی علما ء نے مل کر تحریک چلائی تھی اور سعودی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ روضہ اطہر کی دوبارہ تعمیر کرائے مگر یہ شدت پسند وہابی حکومت ابھی تک روضہ مبارکہ کی تعمیر میں آج کا کام کل پر ٹال رہی ہے اور عالم اسلام پر یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ ہم جنت البقیع کی تعمیر کرنے کے حق میں ہیں لیکن حالات اس بات کی اجازت نہیں دے رہے ہیں کہ ہم تعمیرکا آغاز کرسکیں لیکن یہ شیطانی خیالات کے شیطانی نمائندے جان بوجھ کر ایسا کررہے ہیں اور تمام عالم اسلام کو ٹوپی پہنارہے ہیں۔ ایرانی  حکومت نے بھی بارہا سعودی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جنت البقیع کے روضے کی دوبارہ تعمیر کرائے اور اس سلسلے میں ہم  بھی ہر طرح کا تعاون کرنے کو تیار ہیں؛ آٹھ شوال کو ہر سال اہل بیت رسوۖل کے چاہنے والے پوری دنیا میں مجالس غم اور احتجاجی جلسے کر کے جنت البقیع کے انہدام جیسے انتہائی سفاکانہ اقدام کی مذمت کرتے ہوئے مذکورہ جگہ پر روضے کی دوبارہ تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں ۔آٹھ شوال کی تاریخ ہر سال اہل بیت رسوۖل سے آل سعود اور وہابی مفتیوں کی دشمنی کی یاد پوری دنیا کے سامنے تازہ کر دیتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جنت البقیع کے مزارات کی تعمیر کی تحریک کو جس کی ابتدامیں شیعہ سنی سب برابر کے شریک تھے لیکن وقت گزر نے کے ساتھ گزشتہ ٧ دہائیوں یعنی ٧٠ سال میں ہمارے سنی بھائیوں نے بھلا دیا اورآخرکار یہ کارِخیر صرف اہل تشیع کی ذمہ داری بن کر رہ گیا ہے۔ اور یوں گزشتہ ٧٠ سال سے ہر سال ٨ شوال کو ہم یوم انہدام جنت البقیع منا کر اہلیبت سے مودت کا فریضہ اور اجر رسالت ادا کرتے ہیں۔ اگر ہم سب مسلمان متحدہ طور پر اپنے اسلامی غیرت کا اظہار کرتے رہیں گے تو وہ دن دور نہیں جب جمہوری اسلامی ایران کی طرح ہر اسلامی ملک کے حکام بھی ہمارے ساتھ ہم آواز ہو جائیں گے جس سے استکبار کی نابودی کا آغاز ہو جائے گا اور عدل و انصاف پر مبنی ماحول دنیا بھر میں حاکم رہے گا ۔ پھر نہ اسلامی آثار محو کئے جائیں گے نہ مسلمانوں کا داخلی اختلاف رہے گا اور نہ ہی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ کسی قسم کی ناچاری موجود رہے گی ۔ پروردگار عالم! ہمیں اتنی توفیق مرحمت فرما کہ ہم اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور کہیں اور نہ سہی تو اس مقام پر اپنے اتحاد کا مکمل ثبوت دیں۔ ''آمین''۔ ''والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ ''۔

8 شوال یوم انهدام جنت البقیع

★★جنت البقیع تاریخ کے آئینے میں★★

8 شوال یوم انهدام جنت البقیع هے ,لعنت بر آل سعود

هر سال شوال میں بنت رسول (ص) زوجہ امیرالمومنین علیہ السلام  والدہ گرامی حسنین شریفین علیہما السلام کی یاد گار  بقیع کی ویرانی کی بھی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بقیع  جسے جنت البقیع کہا جاتا ہے آغاز سے ہی ویران تھا یا کسی کے ظلم کا نتیجہ ہے؟۔ بقیع کے بارے میں تاریخ کیا کہتی ہے؟
بقیع حرم نبوی ﷺ کے بعد مدینہ کا اہم ترین اور افضل ترین مقام ہے۔ بقیع کا قبرستان سب سے پہلا وہ قبرستان ہے جو رسول اسلام ﷺ کے حکم سے مسلمانوں کے ذریعے تاسیس کیا گیا۔ بقیع کی اہمیت اور فضیلت میں اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا: ’’بقیع سے ستر ھزار لوگ محشور ہوں گے کہ جن کے چہرے چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے‘‘۔قبرستان بقیع، اسلام کے قدیمی ترین اور ابتدائی ترین آثار میں سے ہے۔ بقیع اولاد رسولﷺ کا مدفن ہے۔ بقیع بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مدفن ہے۔ بقیع چار آئمہ معصومین؛ امام حسن ؑ، امام سجادؑ، امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کا مدفن ہے۔ ان چار آئمہ معصومین ؑ کی شخصیات کو بیان کرنا ہمارے بس سے باہر ہے چونکہ ان کا مقام اتنا بلند اور بالا ہے کہ غیر معصوم ان کے مقام کا ادراک کرنےسے عاجز ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام ان چار آئمہ میں سے ایک ہیں جو بقیع میں مدفون ہیں۔ اہلسنت کے پہلے درجہ کے عالم دین ’’مسلم‘‘ نے اپنی کتاب صحیح مسلم کی پہلی جلد کے صفحہ نمبر ۱۵ پر جابر بن یزید جعفی سے ایک روایت نقل کی ہے  کہ جابر کہتے ہیں: عندي سبعون الف حديث عن ابي جعفر عن النبي كلها صحيح ۔
"میرے سینے میں امام محمد باقرؑ سے مروی ستر ہزار حدیثیں ہیں جو ساری کی ساری صحیح ہیں" یہ نکتہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہمارے آئمہ معصومینؑ خصوصا امام محمد باقرؑ تعلیمات نبوی ﷺ کی نشر و اشاعت میں کس مقام پر فائز ہیں!۔ ان مطالب کا بیان کرنا ممکن ہے آسان دکھائی دے لیکن یہ خارق العادہ کام ہے کہ ایک اکیلا شخص ستر ہزار روایتیں رسول اسلامﷺ سے نقل کرتا ہے۔اسی طرح  بقیع میں مدفون آئمہ میں سے ایک، امام جعفر صادق ؑ ہیں۔ انسان ان عظیم کارناموں کو بیان کرنے سے قاصر ہے جو امام صادق علیہ السلام نے اس گھٹن کے ماحول میں انجام دئیے۔ یہاں پر صرف شیخ مفیدؒ کا ایک نکتہ نقل کیا جا رہا ہےجو انہوں نے اپنی کتاب ’’الارشاد‘‘ میں لکھا ہے۔ انہوں نے امام صادق علیہ السلام سے جن راویوں نے روایتیں نقل کی ہیں ان کی تعداد ۴۰۰۰ بیان کی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ۱۴۰۰ سال پہلے بنی امیہ اور بنی عباس کی پابندیوں کے باوجود امام صادق علیہ السلام نے ایک ایسا حوزہ علمیہ تاسیس کیا کہ جس میں ۴۰۰۰ شاگرد زیر تعلیم تھے۔ آج اتنی ترقی و پیشرفت اور ہر طرح کے وسائل فراہم ہونے کے باوجود ہمارے تمام حوزہ ہائےعلمیہ امام باقر اور امام صادق علیہما السلام کے حوزہ علمیہ کے سامنے کم مایہ ہیں۔امام حسن مجتبیٰ اور امام سجاد علیہما السلام کی شخصیات بھی تمام مسلمانوں کے نزدیک جانی پہچانی ہیں انہیں پہچنوانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بقیع پیغمبراکرمﷺ جلیل القدر صحابہ کا مدفن ہے۔ بقیع حضرت ام البنین (س) کا مدفن ہے۔ بقیع رسول اسلامﷺ کی دایہ جناب حلیمہ(س)  کا مدفن ہے۔ بقیع بہت ساری عظیم ہستیوں کا مدفن ہے کہ جن کے ناموں کو یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔
اس وقت بقیع میں تمام قبریں بغیر نام و نشان کے ہیں ۔ لیکن پرانی تصاویر سے معلوم ہوتا ہے کہ بقیع میں ان قبور پر گنبد اور مقبرے بنے ہوئے تھے۔ٓآئمہ معصومینؑ اور بہت سارے صحابہ کی قبروں پر مقبرے بنے ہوئے تھے۔ بقیع میں مدفون آئمہ معصومینؑ کی قبروں پر سب سے پہلے بنائے گئے روضے کی تاریخ دقیق معلوم نہیں ہے۔ لیکن مجموعی طور پر قرآئن بتاتے ہیں کہ پانچویں صدی ہجری کے بعد بقیع کی قبور پر روضہ بنا ہوا تھا۔ یعنی ’’مجد الملک‘‘ کے زمانے میں ،جو ۴۹۲ ہجری میں قتل کیے گئے اور ذہبی انہیں ایک عظیم انسان کے عنوان سے یاد کرتے ہیں ،یہ روضہ تعمیر تھا۔اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ بقیع کا معمار، مجد الملک کے دور میں ہی قتل کر دیا گیا یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ بقیع میں آئمہ معصومینؑ کی قبروں پر روضہ پانچویں صدی ہجری میں تعمیر کیا گیا ہو گا۔
اس سلسلے میں بہت ساری اسناد موجود ہیں۔ مثال کے طور پراہلسنت کی تواریخ میں آیا ہے کہ سن ۵۱۹ ھ میں عباسی خلیفہ المسترشد باللہ نے آئمہ بقیع کی قبور پر روضہ اور گنبد کی تعمیر نو کروائی۔ یعنی پہلے سے ان قبروں پر ایک گنبد بنا ہوا تھا جس کی سن ۵۱۹ ھ میں دوبارہ تعمیر کروائی گئی۔ بنابرایں، کلیدی نکتہ یہ ہے  کہ اس دور کے اہلسنت نہ صرف آئمہ اطہارؑ کی قبروں پر روضے بنانے کے مخالف نہیں تھے بلکہ خود تعمیر کرتے تھے۔ اہلسنت کے بزرگ علماء کی کتابوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بارگاہ بقیع ہزار سال پرانی تاریخ کی حامل ہے اور اس ہزار سال میں کسی بھی مسلمان نے یہ نہیں کہا کہ یہ شرک اور بدعت ہے اور اسے منہدم کر دینا چاہیے۔
اس عظیم بارگاہ کی خصوصیات کے بارے میں تاریخی اسناد و مدارک میں اسلامی آثار اور مقدس مقامات کی خصوصیات درج ہیں۔ یعنی مورخین نے روضوں کے گنبدوں کی اونچائی اور چوڑائی کو بھی نقل کیا ہے۔ عمارتوں کی شکل وصورت کی بھی منظر کشی کی ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ بقیع میں تعمیر شدہ روضہ آٹھ ضلعی تھا۔ جیسے امام حسین ؑ کا روضہ چھ ضلعی ہے۔
آئمہ اطہارؑ کے علاوہ بقیع میں مدفن دوسری شخصیات کی قبروں پر بھی مقبرے بنے ہوئے تھے مدینہ کے ایک مورخ علی بن موسی اس سلسلے میں لکھتے ہیں  "و قبة آل البیت العظام و هی أکبر القباة..."؛ یعنی آئمہ اطہارؑ کا روضہ بقیع میں موجود دیگر تمام مقبروں سے بڑا تھا۔اس سے زیادہ اہم بات ابراہیم رفعت پاشا کی ہے کہ جس نے اس روضے کے انہدام سے ۱۹ سال پہلے اس کی تعریف میں یوں  لکھا: ’’بقیع میں موجود تمام مقبروں سے بڑا مقبرہ آئمہ اطہار ؑکا تھا‘‘۔
ان دو شخصیات کی باتوں سے دو نتیجے سامنے آتے ہیں:
پہلا کہ آئمہ اطہارؑ کی قبور ہمیشہ سے مسلمانوں کے نزدیک قابل احترام تھیں اورعلمائے اہلسنت میں سے کسی نے بھی ان کے بدعت ہونے کا فتویٰ نہیں دیا۔ یہ خود ایک بہترین دلیل ہے اس بات پر کہ سو سال پہلے جو وہابیوں نے روضہ بقیع کو مسمار کیا ان کا یہ اقدام پورے عالم اسلام کے عقائد کے خلاف تھا۔
دوسرا جس طرح اس دور میں آئمہ اطہارؑ کی قبروں پر روضہ تعمیر کیا جاتا تھا دیگر اسلامی شخصیات کی قبروں پر بھی مقبرے تعمیر کئے جاتے تھے۔یہ مذکورہ علماء اور مورخین میں سے کوئی بھی شیعہ نہیں ہے۔ یہ سب اہلسنت کے علماء اور بزرگان میں سے ہیں۔ لہذا اہلسنت والجماعت جان لیں کہ یہ غیر معمولی حالت جو اس وقت آئمہ بقیع کی قبور اور بقیع میں مدفون دیگر شخصیات کی قبروں کی ہے طول تاریخ میں کسی بھی سلف صالح اور بزرگان کی سیرت سے میل نہیں کھاتی ہے۔ چوتھی صدی سے لے کر تیرہویں صدی ہجری تک ان قبور پر مقبرے بنے رہے اور ان چیزوں کو اسلامی شعائر اور عبادی امور میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ایک وہابی تکفیری سعودی  سامنے آیا اور 8 شوال  ۱۳۴۴ میں اس گنبد کو مسمار کر دیا اور بارگاہ بقیع کو مٹا دیا۔

Wednesday 6 July 2016

Join @ PAYAM-E-ISLAM

Facebook
www.fb.com/payameislamfoundation
WhatsApp
+919839229020
Twitter
@payameislam786
Web
www.payameislam.blogspot.com

Tuesday 5 July 2016

اللوداع ماہ رمضاں Alvida Mahe Ramza'n अलविदा माहे रमजान

........ *الوداع ماہ رمضان* .........

          *تجھ پر سلام ماہ رمضان*

                    ماخوز از

         "دعائے وداع ماہِ رمضان"

      �� *امام زین العابدین ع*  ��

                 

اس مہینے *(ماہِ رمضان)*نے ہمارے درمیان قابل ستائش دن گزارے اور اچھی طرح حق رفاقت ادا کیا اور دنیا جہان کے بہترین فائدوں سے ہمیں مالا مال کیا ۔ پھر جب اس کا زمانہ ختم ہوگیا، مدت بیت گئی اور گنتی تمام ہوگئی تو وہ ہم سے جدا ہورہا ہے ۔ اب ہم اسے رخصت کرتے ہیں اس شخص کے رخصت کرنے کی طرح جس کی جدائی ہم پر دشوار ہو اور جس کا جانا ہمارے لیے غم افزا اور بہت غم انگیز ہو اور جس کے عہد وپیمان کی نگہداشت عزت و حرمت کا پاس اور اس کے واجب الا دا حق سے سبکدوشی بہت  ضروری ہو۔ اس لیے ہم کہتے ہیں:

اے اللہ کے بزرگ ترین مہینے ، *تجھ پر سلام*

اے دوستان خدا کی عید *تجھ پر سلام*

اے اوقات میں بہترین دوست  اور دنوں اور ساعتوں میں بہترین مہینے *تجھ پر سلام*

اے وہ مہینے جس میں امیدیں بر آتی ہیں اور اعمال کی فروانی ہوتی ہے۔
*تجھ پر سلام*

*تجھ پر سلام* اے وہ ہم نشین کہ جو موجود ہو تو اس کی بڑی قدرو منزلت ہوتی ہے اور نہ ہونے پر بڑا دکھ ہوتا ہے اور اے وہ سر چشمہ امید و رجا جس کی جدائی غم  انگیز ہے۔

*تجھ پر سلام* اے وہ ہمدم جو انس و دل بستگی کا سامان لیے ہوئے آیا تو شادمانی کا سبب ہوا اور واپس گیا تو غم  بڑھا کر غمگین بنا گیا ۔

*تجھ پر سلام* اے وہ ہمسائے جس کی ہمسائیگی میں دل نرم اور گناہ کم ہوگئے۔

*تجھ پر سلام*اے وہ مددگار جس نے شیطان کے مقابلے میں ہماری  مدد و اعانت کی، اے وہ ساتھی جس نے حسنِ عمل کی راہیں ہموار کیں۔

*تجھ پر سلام* ( اے ماہ رمضان ) تجھ میں اللہ تعالیٰ کے آزاد کئے ہوئے بندے کس قدر زیادہ ہیں اور جنہوں نے تیری حرمت و عزت کا پاس و لحاظ رکھا وہ کتنے خوش نصیب ہیں ۔

*تجھ پر سلام* تو کس قدر گناہوں کو محو کرنے والا اور قسم قسم کے عیبوں کو چھپانے والا ہے۔

*تجھ پر سلام*  تو گنہگاروں کے لیے کتنا طویل اور مومنوں کے دلوں میں کتنا پرہیبت ہے۔

*تجھ پر سلام* اے وہ مہینے جس سے دوسرے ایّام ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔

*تجھ پر سلام* اے وہ مہینے جو ہر امر سے سلامتی کا باعث ہے۔

*تجھ پر سلام* جب کہ تو برکتوں کے ساتھ ہمارے پاس آیا اور گناہوں کی آلودگیوں کو دھو دیا۔

*تجھ پر سلام* اے وہ جسے دل تنگی کی وجہ سے رخصت نہیں کیاگیا اور نہ خستگی کی وجہ سے اس کے روزے چھوڑے گئے۔

*تجھ پر سلام* اے وہ کہ جس کے آنے کی پہلے سے خواہش تھی اور جس کے ختم ہونے سے قبل ہی دل رنجیدہ ہیں۔

*تجھ پر سلام*۔ تیری وجہ سے کتنی برائیاں ہم سے دور ہوگئیں اور کتنی بھلائیوں کے سرچشمے ہمارے لیے جاری ہوگئے۔

*تجھ پر سلام* ( اے ماہِ رمضان ) اور اس شب قدر پر جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

*سلام ہو* ابھی کل ہم کتنے تجھ پر فریفتہ تھے اور آنے والے کل میں ہمارے شوق کی کتنی فراوانی ہوگی ۔

*تجھ پر سلام* ( اے ماہِ مبارک تجھ پر) اور تیری ان فضیلتوں پر جن سے ہم محروم ہوگئے اور تیری گزشتہ برکتوں پرجو ہمارے ہاتھ سے جاتی رہیں۔ *سلام ہو* .

*اے اللہ! ہم نے اس مہینہ میں جو صغیرہ یا کبیرہ معصیت کی ہو ، یا کسی گناہ سے آلودہ اور کسی خطا کے مرتکب ہوئے ہوں جان بوجھ کر یا بھولے چوکے ، خود اپنے نفس پر ظلم کیا ہو یا دوسرے کا دامن حرمت چاک کیا ہو ۔ تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور ہمیں اپنے پردہ میں ڈھانپ لے اور اپنے عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے معاف کر دے.*

*اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور اس مہینہ کے رخصت ہونے سے جو خلش  پیدا ہوئی ہے اس کا چارہ کر اور عید اور روزہ چھوڑنے کے دن کو ہمارے لیے مبارک قرار دے اور اسے ہمارے گزرے ہوئے دنوں میں بہترین دن قرار دے جو عفو و درگزر کو سمیٹنے والا اور گناہوں کو محو کرنے والا ہو اور تو ہمارے ظاہر و پوشیدہ گناہوں کو بخش دے ۔*

*بارالٰہا! اس مہینہ کے الگ ہونے کے ساتھ تو ہمیں گناہوں سے الگ کر دے اور اس کے نکلنے کے ساتھ تو ہمیں برائیوں سے نکال لے اور اس مہینہ کی بدولت اس کو آباد کرنے والوں میں ہمیں سب سے بڑھ کر خوش بخت ، بانصیب اور بہرمند قرار دے ۔*

*اے اللہ ! ہمارے ماں باپ اور ہمارے تمام اہل مذہب و ملت خواہ وہ گزرچکے ہوں یا قیامت کے دن تک آئندہ آنے والے ہوں، سب کی مغفرت  فرما۔*

             *آمین یا رب العالمین*

�� *(ماخوز از صحیفہ سجادیہ ع)*��

" *اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْهُ آخِرَ الْعَهْدِ مِنْ صِیَامِنَا إِیَّاهُ فَإِنْ جَعَلْتَهُ فَاجْعَلْنِی مَرْحُوماً وَ لَا تَجْعَلْنِی مَحْرُوما.* "

  *" اے اللہ  اس رمضان کے مہینے کے روزوں کو میرے لئے آخری روزے قرار نہ دے, پس اگر تو ایسا ہی قرار دے گا ,تو مجھے رحم شدہ قرار دے اور مجھے (اپنی) رحمت سے محروم شدہ قرار نہ دے"*
 

         *آمین یا رب العالمین*

�� الحَمدُلله الَّذي 
جَعَلَنامن المتمَسِكينَ بِوِلايَت        ِاَميرَالمومِنين عَلي بُن اَبيطالِب (ع)��

  ��السلام علیک یا ابا عبد اللہ��

��اللھم صل علی محمد وآل محمد وعجل فرجہم ��

    ��اللهم عجل لولیک الفرج��

                   التماس دعا

Monday 4 July 2016

فطرہ Fitra फितरा

Eid-ul-Fitr

تمام مومنین خصوصاًً آپکی خدمت میں عید الفطر کی مبارکباد پیش کرتے ہیں....
امام علی علیہ السلام
تمہاری ہر اس دن عید ہے جس دن تم سے کوئی گناہ نہ ہوا ہو.

Featured Post

PAYAM E ISLAM Foundation is now available on YOUTUBE...

Salamun alaikum... The insitute PAYAM E ISLAM Foundation is now available serving ISLAM on YOUTUBE... The main objectives are:- 💡Deep ...

Popular Posts