Wednesday 27 September 2017

     🏴 عزاداری کی جزا 🏴



◼️⚫️◼️غمگین ستارے◼️⚫️◼️
أَلسَّلامُ عَلَى الْمَدْفُونينَ بِلا أَكْفان
سلام ہو........... بےکفن لاشوں پر
     حدیث نمبر 15
      عزاداری کی جزا 
                         ✍ سید غافر رضوی
               
قال علی بن الحسین السجاد علیه السلام: ایما مؤمن دمعت عیناه لقتل الحسین و من معه حتی یسیل علی خدیه بوأه الله فی الجنة غرفا .
✍ ترجمہ: امام سجاد علیه السلام نے فرمایا: جس مومن کی آنکھ سے قتل حسین(ع) اور حسین(ع) کے ساتھیوں کی شہادت پر ایسے آنسو نکلیں کہ بہہ کر رخساروں تک پہنچ جائیں تو خداوند عالم اس کے لئے جنت میں ایک حجرہ معین کرتا ہے.
ینابیع الموده، ص .429
✍ حدیث کا سبق: یہ حدیث بھی گزشتہ حدیث کی مانند اشک عزا اور عزاداری کی اہمیت کو اجاگر کررہی ہے، یہاں بھی ساری تفصیل وہی ہوگی جو گزشتہ حدیث میں پڑھی ہے کہ گریہ معرفت کے ساتھ ہونا چاہیئے، بغیر معرفت گریہ کرنا کسی اہمیت کا حامل نہیں ہوتا چاہے روتے روتے بے خودی کا عالم کیوں نہ ہوجائے؛ لیکن اگر معرفت کے ساتھ ایک اشک بھی نکل جائے تو وہ اشک جنت کا سبب قرار پاسکتا ہے.

Friday 22 September 2017

غمِ حسین(ع) کی سالانہ یاد


◼️⚫️◼️غمگین ستارے◼️⚫️◼️

🔴أَلسَّلامُ عَلَى الْمَدْفُونينَ بِلا أَكْفان🔴
🔴سلام ہو........... بےکفن لاشوں پر🔴

     🖋📖حدیث نمبر 5🚩

         🏴 غمِ حسین(ع) کی سالانہ یاد 🏴

🕯قال الامام الصادق علیه السلام: نیح علی الحسین بن علی سنة فی کل یوم و لیلة و ثلاث سنین من الیوم الذی اصیب فیه.

✍ ترجمہ: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: پورے ایک سال تک ہر روز و شب مسلسل امام حسین(ع) پر گریہ کیا گیا اور تین سال تک شہادت کے روز یعنی روز عاشورا مجلس و ماتم کیا گیا.
📚بحار الانوار، ج 79، ص .102📚

✍ حدیث کا سبق: اس حدیث سے اشارہ ہے مخلوقاتِ الٰہی کی طرف، کہ تمام مخلوقات نے پورے ایک سال تک امام حسین(ع) کی مظلومیت پر نوحہ و ماتم کیا اور ان کی شہادت کی یاد میں تین سال تک روز عاشورا مجلس بپا کی گئی. گویا ہر سال محرم منانا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ بہت پرانی سنت ہے جس میں عرشِ الٰہی کے مکین بھی شامل ہیں، ہمیں ہر محرم میں عزاداری کے حق کو پیش نظر رکھنا چاہیئے، عزاداری کے مقصد کو فراموشی کی نذر نہیں ہونا چاہیئے.
🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴


🏴🚩🏴🚩🏴🚩🏴🚩

Join Kijiey👇جوائن کیجئے
https://t.me/Raah_e_Nijaat

🏴🚩🏴🚩🏴🚩🏴🚩
From Saghar e Ilm Foundation

Friday 1 September 2017

#EID_UL_AZHA_MUBARK


Join @ PAYAM-E-ISLAM
www.t.me/Payameislamfoundation
www.fb.com/PayameIslamfoundation
www.twitter.com/Payame_islam
www.instagram.com/Payameislamfoundation

Thursday 31 August 2017

Shadate Janabe Muslim a.s

Join @ PAYAM-E-ISLAM
t.me/Payameislamfoundation
fb.com/PayameIslamfoundation
twitter.com/Payame_islam
instagram.com/Payameislamfoundation

Monday 3 July 2017

کربلا بقیع


سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی
۸/شوال ۱۴۳۸.ھ   ۳/جولائی ۲۰۱۷.ء
ٹوٹے ہوئے دلوں کے لئے آسرا بقیع
فرشِ زمیں پہ رہ کے بھی جنت نما بقیع
سنتے ہی نام، ظلم لرزتا ہے آج بھی
گویا کہ بن گیا ہے کوئی اسلحہ بقیع
ظاہر میں گرچہ خاک کے ذرّات ہیں مگر
پھر بھی ہے دشمنوں کے لئے آئینہ بقیع
جو لوگ ہیں صراطِ ہدایت پہ گامزن
ان کے لئے رہے گا سدا رہنما بقیع
اب اس سے بڑھ کے اور فضیلت ہو کیا رقم
بدعت کی وادیوں میں بَنَا معجزہ بقیع
تونے لیا ہے چار اماموں کو گود میں
جنت سے کم نہیں ہے تِرا مرتبہ بقیع
ہونے لگی سخاوتِ حاتم بھی سجدہ ریز
ہے معدنِ جواہِرِ مشکل کشا بقیع
سائل کی مثل مانگ کے دیکھو تو ایک بار
لمحوں ہی میں کرے گا تمہیں کیا سے کیا بقیع
صبح و مسا خدا سے یہ کرتا ہوں التجا
مرنے سے پہلے مجھ کو دکھا دے خدا بقیع
یوں تو ہیں سب زیارتیں آرامِ دل فلکؔ
دھڑکن ہے مومنوں کی مگر کربلا بقیع


Sunday 19 March 2017

Wiladate Janabe Fatima Zahra s.a

ولادت با سعادت فاطمہ زہرہ سلام اللہ علیہا
By PAYAM E ISLAM Foundation Chholas Sadat

آئینۂ اوصافِ پیغمبر ﷺ

`    
      (مدحتِ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا)
بمناسبتِ ولادت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا شبِ ۲۰/جمادی الثانی ۱۴۳۸.ھ حسینیہ امام صادق قم المقدسہ ایران.
✍سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی

قرآن کہہ رہا ہے    کہ کوثر ہیں  فاطمہ
محشر تلک اماموں کی مادر ہیں فاطمہ

قائم ہے نسلِ پاک زمانہ میں آج بھی
یعنی جوابِ طعنۂ ابتر ہیں    فاطمہ

اعلاں کیا ہے عفّتِ مریم  نے شان سے
لفظِ حیا صدف ہے تو گوہر ہیں فاطمہ

ہو     منظرِ   حدیثِ کسا     یا     مباہلہ
عصمت کےطول وعرض کا محور ہیں فاطمہ

پایا خطابِ "اُمِّ اَبِیہَا" رسول سے
ایسی شریکِ کارِ پیمبر ہیں فاطمہ

اشعارِ مدح لگتے ہیں قرآنی آیتیں
ذکرِ کلامِ حق کے برابر ہیں فاطمہ

شوہر امام،   باپ نبی،    اور پسر امام
گویا کہ عصمتوں کا سمندر ہیں فاطمہ

یہ سچ ہے خود نہیں ہیں ۔ امام و نبی مگر
دونوں کی خوشبوؤں سے معطر ہیں فاطمہ

لگتا ہے یہ کتابِ رسالت  کو دیکھ کر
تحریر ہیں رسول تو جوہر ہیں فاطمہ

طوفانِ ظلم و جور سے گھبرائیں کس لئے
دنیائے صبر و ضبط   کی رہبر ہیں  فاطمہ

پیغام کوئی دے دے مخالف ہواؤں کو
ہر قلبِ باشعور  کے   اندر ہیں   فاطمہ

یہ نغمہ ساکنانِ فلکؔ سے سنا گیا
آئینۂ . صفاتِ پیمبر  ہیں   فاطمہ

Saturday 18 March 2017

عید نوروز کے اعمال Eid-e-Nowroz ke Aamal








ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی



بنتِ مصطفی ٰ ﷺ

`      🌹بنتِ مصطفی ٰ  ﷺ🌹
✍🏼سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی
۱۷/جمادی الثانی ۱۴۳۸.ھ   ۱۶/مارچ ۲۰۱۷.ء

جب *فلکؔ* نے لکھا ہے یا زہرا
کِلک سجدہ میں گر پڑا زہرا
یہ فضیلت ہی سب پہ بھاری ہے
آپ ہیں بنتِ مصطفیٰ زہرا
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

Friday 17 March 2017

Historic status of Nawroz

نوروز کی تاریخی حیثیت

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

نوروز، فروردین 1394 .ش   بمطابق مارچ 2015.ء

    نوروز: درحقیقت لفظ نوروز فارسی زبان کالفظ ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے ''نیا دن''۔ نوروز کو نوروز اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ شمسی سال کا پہلا روز ہوتا ہے یعنی شمسی سال اسی روز سے شروع ہوتا ہے اسی سبب اس کو نوروز سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس لفظ کے فارسی ہونے کا سبب یہ ہے کہ اہل فارس کاکلنڈر شمسی ہوتا ہے اور وہ اپنے امور اسی کلنڈر کے اعتبار سے انجام دیتے ہیں۔ نوروز، اہل فارس کے لئے عظیم عید سے تعبیرکیاجاتا ہے۔ یہ تہوار شاہانِ فارس کے زمانہ سے ایک بہترین رسم کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر تہوار میں رسومات کے ساتھ ساتھ خرافات بھی موجود ہوتی ہیں، اسی طرح اس تہوار میں بھی کچھ خرافات ہیں لیکن سو فیصد خرافات نہیں کہاجاسکتا لہٰذا اہل فارس کے درمیان دوسرے تہواروں کی مانند اس تہوار کو بھی بڑی شان وشوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے بلکہ جتنا اہتمام اس تہوار کے لئے ہوتا ہے اتنا اہتمام کسی تہوار کے لئے دیکھنے میں نہیں آتا۔ یوں تو یہ تہوار ہندوستان میں بھی بڑی شان کے ساتھ منایاجاتا ہے لیکن جس شان وشوکت کے ساتھ ایران میں منایا جاتا ہے اس کی نظیر ڈھونڈے نہیں ملتی۔ اگر یہ کہاجائے تو شاید غلط نہ ہو کہ ہر ایرانی اس تہوار کی بابت نہایت ہی حسّاس نظرآتا ہے۔ اسلام کی عظیم عیدیں (عید فطروعیدقرباں )سادگی کے ساتھ گزرسکتی ہیں لیکن اس عید(نوروز) پر نئے نئے کپڑے، گھروں کی صفائی، قالینوں کی دھلائی، خریداری اورگردش غرض ہر قسم کے انتظامات نہایت ہی دلچسپی کے ساتھ انجام دیئے جاتے ہیں۔ گویا یہ عید ہی ایرانیوں کی سب سے بڑی عید ہوتی ہے۔ یہ عید ایرانی اور شمسی کلنڈر کے اعتبار سے ١/فروردین کو منائی جاتی ہے کیونکہ فروردین ،شمسی کلنڈر کا پہلا مہینہ ہے اور اس مہینہ کی پہلی تاریخ سے سالِ نو کا آغاز ہوتا ہے۔ ایرانی تمدن میں شمسی سال کے آغاز کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور اس سال کے پہلے مہینہ کی پہلی تاریخ اس قدر مقبول اور اہم ہے کہ اس دن نے ایک تہوار کا درجہ حاصل کر لیا اور ایرانی شمسی سال کے آغاز کو ثقافتی دن سمجھ کر مناتے ہیں اور یہ دن فقط ایران تک محدود نہیں بلکہ جہاں جہاں بھی فارسی زبان بولی جاتی ہے وہاں وہاں اس کے اثرات نظر آتے ہیں مثلاً:تاجکستان، افغانستان، آذربائیجان، ہندوستان اور پاکستان کے بعض علاقے بھی شامل ہیں ۔ جشن نوروز کا آغاز قدیمی روایت کے مطابق سال کے پہلے مہینے کی پہلی تاریخ (١/فروردین بمطابق ٢١ /مارچ)جمشید(ہخامنشی بادشاہ)کے تخت نشین ہونے کے بعد سے ہوا ، البتہ اس سے پہلے بھی نوروز کا دن لائق تعظیم اور قابل قدر سمجھا جاتا تھا۔اس دن کی اہمیت کے پیش نظر ہی جمشید نے اپنی تخت نشینی کے لئے اس دن کا انتخاب کیا۔ اسلام سے پہلے ہخامنشی دور کے بادشاہ اور عوام نوروز کا جشن رسم و رواج کے مطابق سال کے تحویل ہونے کے وقت مناتے تھے جو کہ آج بھی جاری وساری ہے، آج بھی اسی وقت جشن منایا جاتا ہے جب تحویل سال کا وقت ہوتا ہے۔ اس تہوار میں بعض چیزیں قابل ذکر ہیں مثلاً: عید نوروز سے ایک ہفتہ قبل گیہوں کا اگاناجوکہ امن وامان کا علمبردار سمجھا جاتا ہے،  ہفت سین کا دسترخوان سجانا، چہارشنبہ سوری منانا(یہ بدھ کا دن ہے جو نوروزسے پہلے آتا ہے)؛ اگر ان چیزوں کو تفصیل سے نہ بیان کیا جائے تو شاید نوروز کی لذت ناقص رہ جائے! لہٰذا تھوڑی سی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

چہارشنبہ سوری: یہ وہ بدھ کا دن ہے جو سال کا آخری چہارشنبہ ہوتا ہے اور نوروز سے پہلے آتا ہے؛ اس روز یعنی منگل کا دن گزارنے کے بعد شب چہارشنبہ میں سڑکوں اور چھتوں پر آگ روشن کی جاتی ہے اور اس آگ کے اوپر سے چھلانگ لگائی جاتی ہے۔ ظاہراً تو یہ رسم آتش پرستوں کی نشانی معلوم ہوتی ہے لیکن اگر اس کے پیغام پر غور کیا جائے تو شاید اسلامی اعتبار سے بھی صحیح ہو! کیونکہ اس آگ کے درمیان کچھ دوست یا اہل خانہ اپنے ہاتھ دوسرے کے ہاتھوں میں دیتے ہیں اور آگ کے گرد چکر لگاتے ہوئے ایک دوسرے سے کہتے ہیں: ''بدی تو از من، خوشبختی من از تو'' یعنی تیرے تمام غم واندوہ میرے نصیب میں آجائیں اور میری تمام خوشیاں تیرے نصیب میں چلی جائیں۔ اگر اس جملہ کو اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اس میں کسی قسم کی قباحت نہیں ہے البتہ اگر یہ امر آگ کی تعظیم کے پیش نظر انجام دیا جائے تو آتش پرستی سے تعبیر کیا جائے گا جو کہ حرام ہے۔

سبزہ اُگانا: نوروز سے تقریباً ایک ہفتہ یا دس روز پہلے ایران کے ہر گھر میں ایک برتن میں گیہوں بوئے جاتے ہیں تاکہ وہ نوروز تک اُگ جائیں اور نو روز کے دن اس سبزہ کو دسترخوان پر سجایا جاسکے۔ اگر کوئی اپنے گھر میں کسی سبب سبزہ نہیں اُگا پایا تو وہ بازار سے خریدلیتا ہے کیونکہ نوروز کے موسم میں اس روز کام میں آنے والی تمام اشیاء فراہم ہوتی ہیں۔ اس سبزہ کو امن وامان کی نشانی سے تعبیرکیاجاتا ہے۔

ہفت سین: سفرۂ  ہفت سین یعنی ٧/ طرح کی سینوں سے سجا ہوا دسترخوان ،عید نوروز کی اہم ترین رسموں میں سے ہے جس میں ''س ''سے شروع ہونے والی ٧/اشیاء کو دسترخوان پر سجایا جاتا ہے مثلاً :سیر(لہسن)، سیب ، سرکہ ، سمنو (گندم سے تیار شدہ شیرینی)، سنجد(ایک قسم کاپھل)، سماق(ایک طرح کا مصا لحہ)اور سبزہ .

اگر گزشتہ تاریخ پر نظر کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ سفرۂ  ہفت سین، سفرہ ٔ ہفت شین سے تعبیرکیاجاتا تھا جو کہ بعد میں  ہفت سین میں تبدیل ہوا ۔قبل از اسلام سفرہ ٔ ہفت شین میں شمع ، شراب ، شیرینی ، شہر ، شمشاد(ایک قسم کا درخت )، شربت و شقایق (ایک قسم کا پھول )یا شاخہ نبات(شیرینی)ہوا کرتے تھے۔ ہخامنشی دور میں عید نوروز کے دسترخوان پر انواع واقسام کی غذائیں ٧/قسم کے چینی کے ظروف میں سجائی جاتی تھیں اسی وجہ سے انہیں  ہفت چین یا ہفت چیدنی کہا جاتا تھا۔ ہخامنشی دور کے بعد ساسانی دور میں سفرۂ ہفت چین تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ سفرہ ٔ ہفت شین میں تبدیل ہوا۔ساسانی حکمرانوں کے سقوط کے بعد جب ایرانیوں نے اسلام قبول کیا تو کوشش کی کہ اپنے قدیمی رسم و رواج کو ختم نہ ہونے دیں، کیونکہ اسلام میں شراب کو حرام قرار دیا گیا تھا اسلئے ''شراب''کی جگہ ''سرکہ''انتخاب کیا گیا۔بقیہ چیزوں میں بھی تبدیلی کی گئی۔اس طرح ''ش''کی جگہ ''س''سے شروع ہونے والی چیزوں کو دسترخوان پر سجایا جانے لگا اور سفرۂ  ہفت شین... سفرۂ ہفت سین سے تبدیل ہو گیا۔

ان  ہفت سین(سیر ، سیب ، سرکہ ، سمنو ، سنجید ، سماق و سبزہ )کے ساتھ نوروز کے دسترخوان پرقرآن کریم، آئینہ، چاول ، سکہ ، پانی اور لال مچھلی کا رکھنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے کیونکہ قرآن کریم برکت کی نشانی ہے، آئینہ حقیقت کی علامت ہے، چاول اور سکہ فراوانی کی علامت ہے، پانی اور مچھلی پاکیزگی اوراچھے شگون کی علامت ہے۔انکے علاوہ بھی چند چیزیں مثلاً: رنگین انڈے ، میوے ، کیوڑا ، نان و پنیر وغیرہ سے نوروز کے دسترخوان کی شان میں اضافہ کیا جاتا ہے۔بعض افراد دیوان حافظ یا شاہنامہ فردوسی کو بھی دسترخوان پر سجاتے تھے (اس لئے کہ یہ ان لوگوں کی شاہانہ علامت تھی)جو آج کل نہیں سجایاجاتا۔

صلۂ رحم: عید نوروز کم سے کم ١٥روز پر مشتمل ہوتی ہے یعنی پہلی فروردین سے ١٥/فروردین تک ایرانیوں کے درمیان نہایت ہی خوشحالی نظرآئے گی، ایرانی لوگ تحویل سال کی دعاؤں سے فراغت پانے کے بعداپنے اعزاواقارب کے گھروں کی جانب رخ کرتے ہیں اوربازار سے انواع واقسام کی مٹھائیاں خریدکر ان کے گھر لے جاتے ہیں، ایرانیوں کا یہ حسن سلوک اور صلۂ رحم قابل دید ہوتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان پندرہ دنوں میں کوئی ایرانی اپنے گھر نہیں رہتا بلکہ تمام ایرانی سڑکوں پرگھومتے نظرآتے ہیں؛ جب کہ ایسا نہیں ہے کہ وہ لوگ بیکار ہی سڑکوں پرگھوم رہے ہوں بلکہ وہ اس لئے نظرآتے ہیں کہ وہ اپنے عزیزوں کے گھرصلۂ رحم کرنے جارہے ہیں۔

سیزدہ بدر: یہ وہ روز ہے جو سال کے پہلے مہینہ کی تیرہ تاریخ میں آتا ہے، فارسی میں سیزدہ کے معنی تیرہ کے ہوتے ہیں اور تیرہ تاریخ کو (بلکہ تیرہ کے عدد) کو یہ لوگ نحوست سے تعبیر کرتے ہیں اور اسی کے پیش نظرتیرہ فروردین کو کوئی بھی ایرانی اپنے گھر میں نظرنہیں آئے گا بلکہ گھر چھوڑکربیابان میں چلا جائے گا کہ اگر کوئی نحوست آئے تو وہ ہمیں نہ دیکھ پائے!۔ اسی روز وہ اپنے ساتھ اس سبزہ کو بھی لے جاتے ہیں جو انھوں نے نوروز سے پہلے اگایاتھا اور اس سبزہ کو پانی میں بہا دیتے ہیں جو اچھے شگون سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ رسم عقل و شعور سے ماوراء ہے لہٰذا آیات عظام ، مراجع کرام اور علماء اعلام اس رسم کی بہت زیادہ مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر عید ہی منانا چاہتے ہو تو اسلامی دائرہ میں رہ کر مناؤ اور ایسی رسومات انجام دو جو قرین عقل ہوں؛ ان حضرات کی باتوں کا اثر توہوتا ہے لیکن سوفیصداثرنہیں دکھائی دیتا کیونکہ جو رسم ایک مدت سے چلی آرہی ہے اس کا خاتمہ آسانی سے نہیں ہوسکتا؛ ان حضرات کی یہی کوشش ہے کہ اس رسم کو ختم کیاجائے۔

سال کا نام رکھنا: رہبر معظم آیة اللہ خامنہ ای مد ظلہ العالی، ہرسال نوروز کے روز مشہدمقدس میں تشریف فرما ہوتے ہیں۔ ایرانی ٹی وی پر تحویل سال کے وقت جشن نوروز کی دعاؤں کے فوراً بعدآپ کی تقریر ہوتی ہے، آپ اس تقریر میں گزشتہ سال کے حادثات، حکومتی منافع اور ضرر کو بیان کرتے ہیں اور یہ تاکید فرماتے ہیں کہ جس سال میں ہم اس وقت قدم رکھ رہے ہیں اس سال کو گزشتہ سال سے بہتر بنایا جائے۔ رہبرمعظم کی مکمل کوشش رہتی ہے کہ عید نوروز کی آڑ میں آئی ہوئی خرافات کا خاتمہ کیا جائے یہی سبب ہے کہ جب آپ تقریر کرتے ہیں تو اپنی تقریر کے درمیان نئے سال کا ایک نیا نام رکھتے ہیں، یہ نام اپنے اقتصاد اور اسلامی نقطۂ نگاہ کو نظرمیں رکھتے ہوئے قراردیتے ہیں، اگر کوئی مناسبت ہوتی ہے تو آپ اس کا تذکرہ کرنا بھی لازم سمجھتے ہیں تاکہ عوام کی ذہنیت کو خرافات سے نکال کر دوسری جانب مشغول کریں، اس کے کچھ نمونے اس طرح ہیں : (١)ایک سال نوروز ، محرم کے ایام میں واقع ہوا تو آپ نے فرمایا: ''ما امسال عید نداریم '' یعنی اس سال ہماری عید نہیں ہوگی۔ آپ کے اس جملہ نے کافی حد تک اثر قائم کیا اور کافی تعداد میں لوگوں نے عید نہیں منائی۔ اس کے بعد کئی سال تک ان کا یہ تہوار غموں کے ایام میں آتا رہا اور ایران کے بہت سے افراد نے عید کی خوشیوں سے پرہیز کیا۔ (٢) تقریباً دو تین سال سے عید نوروز، ایام فاطمیہ میں واقع ہورہی ہے تو اس کے پیش نظر آپ ہر سال اپنی تقریر میں ایام فاطمیہ کی تاکید کرتے ہیں اور قوم سے خطاب کرتے ہیں کہ ''ہمیں عید کی خوشیوں میں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے غم کو گم نہیں کرناچاہئے بلکہ ہمارا فریضہ ہے کہ سیرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکو اپنی زندگی کا شعار بنائیں اور ان کی محبت کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنائیں''۔ رہبرمعظم کے جملہ کے آخری حصہ(ان کی محبت کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنائیں)کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ دورحاضرمیں دشمنان اسلام ومسلمین اس بات کے درپئے ہیں کہ تعلیمات محمد و آل محمدﷺ کا خاتمہ کردیا جائے، مسلمانوں کے دلوں سے محمد و آل محمدﷺ کی محبت کو ختم کردیا جائے، وہ ظاہراً تو محبت کا دعویٰ کرتے نظرآئیں لیکن ان کے دل محبت سے خالی ہوں، ایسی صورت میں ہمارا فریضہ ہے کہ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اور ان کی پیروی کرتے ہوئے محبت کا ثبوت دیں اور دشمنوں کو یہ سمجھائیں کہ تمہاری سازش ناکام ہوگئی اب کوئی اور سازش اپناؤ۔

رہبرمعظم کے بیانات کے پیش نظرہمارا فریضہ ہے کہ ہم نوروز منائیں لیکن رسومات کی آڑ میں خرافات نہ پھیلائیں، رسومات انجام دیں لیکن صرف ایسی رسومات ہوں کہ اسلامی دائرہ سے خارج نہ ہوں، ایسی رسومات ہوں جن کے سامنے عقل سلیم بھی انگشت اعتراض بلند نہ کرسکے۔ صرف نوروز ہی نہیں بلکہ ہرتہوار اسی بات کا متقاضی ہے کہ ہم رسومات کو اسلامی حدود میں منائیں اور خرافات سے دامن بچائیں۔ ''والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ''۔    


پبلشر-پیام اسلام فاؤنڈیشن چھولس سادات

Monday 13 March 2017

اردو زبان Urdu zaban Nazm


✍سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی
۱۴/جمادی الثانی ۱۴۳۸.ھ   ۱۳/مارچ ۲۰۱۷.ء

معراجِ آدمیّت اردو زباں ہماری
سرچشمۂ عقیدت اردو زباں ہماری

قند و شکر سے شیریں ہے چاشنی سے مملو
ہے حاملِ حلاوت اردو زباں ہماری

لہجہ دیا اسی نے دنیائے عاشقی کو
پیمانۂ محبّت اردو زباں ہماری

گونجی اذانِ الفت جس دم فصیلِ دل میں
کہنے لگی اقامت اردو زباں ہماری

ہرگز نہیں یہ قائل ایجادِ دشمنی کی
ہے حامیِ جماعت اردو زباں ہماری

نفرت ہے بے تحاشہ ظلم و ستم سے اس کو
دلدادۂ عدالت اردو زباں ہماری

وارث ہیں اس زباں کے غالب، فراق و حالی
درد و تقی کی دولت اردو زباں ہماری

اہلِ ادب نے اس کو زورِ قلم سے سینچا
ہے ان کی ہی وراثت اردو زباں ہماری

اس کے ہی دم قدم سے ہے محفلوں میں رونق
علم و ادب کی نکہت اردو زباں ہماری

پڑنے نہ دیں گے اس پر سایہ خباثتوں کا
ہے مرکزِ شرافت اردو زباں ہماری

منڈلا رہا ہے اس پر بھونرے کی مثل شاعر
کتنی ہے باظرافت اردو زباں ہماری

ہر اک زباں کو ہنس کر آغوش میں ہے لیتی
کیسی ہے پاک طینت اردو زباں ہماری

اہلِ ہنر کی دولت اہلِ ادب کی عزت
اسلاف کی امانت اردو زباں ہماری

اس کی نزاکتوں کی تاثیر ہے فلکؔ تک
کتنی ہے پُر لطافت اردو زباں ہماری

Monday 20 February 2017

سسکیاں


سسکیاں

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

8/3/2016

گوشِ دل کی سماعت کو اپنے ہوش و حواس کھونے کا خطرہ لاحق ہونے لگا...، عجیب قسم کی اداسی ہے...، ہر سمت اداسی ہی اداسی!، جو کسی مظلوم کے شکستہ دل کی عکاسی کر رہی ہے...۔  کیا یہ مدینہ کی وہی گلیاں نہیں ہیں جس کی خاک محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ کی قدم بوسی کرکے فخر و مباہات کیا کرتی تھی!۔
یہ جان لیوا سناٹا کیوں چھایا ہوا ہے؟ کیا مدینے کے رہنے والے سب لوگ خدا کو پیارے ہوگئے! ،   نہیں... سب لوگ زندہ ہیں، خدا کو پیارا تو صرف خدا کا پیارا حبیب ہوا ہے۔
لیکن... اس بات کا کیا مطلب ہے کہ جس گھر سے جنازہ اٹھا ہے وہاں سے دھواں اٹھتا نظر آرہا ہے؟ کیا رسول کی پارۂ جگر عرب کی رسومات بھول چکی ہیں کہ جس گھر میں موت ہوجائے اس گھر میں چولہانہیں جلایاجاتا!، جی نہیں! یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے بیت الشرف میں چولہا روشن نہیں ہے... ذراعقل و خرد کو استعمال کرنے کی کوشش کیجئے... کیا ایک چولہا جلنے سے اتنا زیادہ دھواں اٹھے گا کہ آسمان سے باتیں کرسکے...!!۔  ذرا در رسول صلی اللہ علیہ وآلہ پر جاکر ماجرا دیکھنے کی کوشش کیجئے... یہ چولہا روشن نہیں ہے بلکہ اس دروازہ میں آگ لگی ہوئی ہے جس پر ہر روز خدا کا رسولؐ سلام کیا کرتا تھا... ابھی تو پیغمبر خداؐ کی رحلت کو زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا کہ... دروازہ میں آگ... اللہ اکبر... ۔
یہ مدینہ کے سناٹے میں سسکیوں کی صدائیں کیسی...؟ یہ کیسا سوال ہے!، جب آپ کو معلوم ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ دار فانی سے دار باقی کی جانب کوچ کرچکے ہیں تو کیا ایک چہیتی بیٹی کی سسکیاں سنائی نہیں دیں گی!!۔
جی ہاں!باپ کی مصیبت پر نالہ و فریاد کرنا ہر بیٹی کا حق ہوتا ہے لیکن...یہ مرثیہ کیسا:
 ''بابا تمہارے بعد پڑیں وہ مصیبتیں ... دن پر اگر وہ پڑتیں بدل جاتا رات میں''
آخر اس مرثیہ کا سبب کیا ہے؟ رسولؐ کی چہیتی بیٹی کی زبان پر درد بھرے فقروں کا آنا بے معنی و بے مفہوم نہیں ہے... جب ان مصائب پر تاریخ کی نظر جاتی ہے تو خود تاریخ بھی لہو رونے لگتی ہے... تاریخ کی نظروں کو وہ سانحہ بھلائے نہیں بھولتا جب راتوں کے سناٹوں میں تمام اہالی مدینہ چین و سکون سے آرام کی نیند سورہے تھے لیکن ایک مظلومہ تھی جس کے نالے اہل مدینہ کے آرام میں خلل ڈال رہے تھے، یہ بیٹی کتنی مظلوم تھی کہ باپ کی یادمیں رونے سے بھی لوگوں کی نیند میں خلل پڑ رہا تھا!۔ یہ وہ بی بی ہے جس کے پہلو پر جلتا ہوا دروازہ گرایا گیا، یہ وہ بی بی ہے جس کے شکم میں دنیا کی بہاریں دیکھنے سے قبل ہی ایک بہار، نذر خزاں ہوگئی...۔ یہ وہ مظلوم بی بی ہے کہ جب جلتا ہوا دروازہ پہلو پر گرایا گیا تو اپنے شوہر کو بھی مدد کے لئے نہ پکارسکی بلکہ اپنی کنیز کو مدد کے لئے بلایا: اے فضہ آؤ میری مدد کرو، میرے شکم میں میرا محسن شہید ہوگیا... یہ وہ مظلوم بی بی ہے جس نے اپنے غیور شوہر کے گلے میں ریسمانِ ظلم دیکھی!۔  کیا اس تناظر میں اس بی بی کو اتنا حق بھی حاصل نہیں کہ وہ اپنی سسکیوں سے قصر باطل کولرزا سکے!!۔  کیا کوئی انسان اس مظلومہ کو دیکھ کر یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ شہزادی اپنی حیات کی اٹھارہویں بہار دیکھ رہی ہے! کیا اٹھارہ سال کی نوجوان لڑکی ایسی ہی ہوتی ہے... کمر خمیدہ ہوچکی ہے... سر کے بال سفید ہوچکے ہیں... ہاتھوں میں عصا لیکر چلتی ہے... کیا اب بھی آپ یہی کہیں گے کہ یہ بی بی سسکیاں کیوں لے رہی ہے...!!۔  ہر معاشرہ کا یہ دستور ہوتا ہے کہ مرنے والے کے گھر تعزیت پیش کرنے کو آتے ہیں لیکن یہ معاشرہ کیسا ہے... کیا حضور اکرمؐ نے اپنی حیات میں حکم خداوندی کے تحت یہ نہیں فرمایا کہ میرا اجر رسالت یہی ہے کہ میرے قرابتداروں سے مودت اختیار کرو! کیا اجر رسالت کی ادائیگی کا یہی طریقہ تھا جو رسولؐ کی رحلت کے بعد اپنایا گیا!۔  یہ ایسے حقائق ہیں جن سے کوئی مورخ آنکھیں نہیں چرا سکتا کیونکہ تاریخ اس کی آنکھیں نکال لے گی...۔  یہ مصائب کے تمام پہلو تاریخ میں ایک مظلومہ کی مظلومی کو ببانگ دہل بیان کرتے ہیں جن کی بنا پر یہ سسکیاں کوئی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت پر مشتمل وہ اظہار غم ہے جو عالم بشریت کو سوچنے پر مجبور کردے!۔  ان سسکیوں نے تو تاریخ کو بھی سسکیاں لینے پر مجبور کردیا... ان سسکیوں کا تانتا اس وقت تک بندھا رہا جب تک روح قفس عنصری سے پرواز نہ کرگئی...۔  یکبارگی تسبیح و تہلیل کی آواز بند ہوئی، اسمیٰ نے چیخ مارکر گریہ کرنا چاہا لیکن حالات کے پیش نظر آواز گلے میں گھٹ کر رہ گئی... آخر اس مظلومہ نے کتنے ستم سہے تھے کہ غسل وکفن اور دفن کی وصیت بھی کی تو رات کے لئے... یاعلی مجھے رات میں غسل دیجئے گا، یاعلی مجھے رات میں کفن دیجئے گا، یاعلی مجھے رات میں دفن کیجئے گا... ''۔ زبان حال سے شہزادیؑ اپنے شوہرِ نامدار سے وصیت کررہی تھیں:
"برما رہی ہیں قلب کو ان کی وصیتیں  ...غسل وکفن ہو میرا اندھیروں کے سائے میں ''
 وصیت پر عمل کرتے ہوئے علیؑ نے جنازہ کو غسل دینا چاہا تو علیؑ جیسا صابر بھی چیخ مارکر رودیا! اس صابر نے ایسا کیا دیکھ لیا کہ دامن صبر چھوٹ گیا! پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا!! مزاج شناسِ امامت ''سلمان فارسی'' ہاتھوں کو جوڑکر آگے بڑھے... مولا!... اس چیخ کا سبب...؟ مولا نے آنسو صاف کرتے ہوئے جواب دیا: ''سلمان!... بنت رسولؐ بہت صابرہ تھی، اپنے شکستہ پہلو کو لے کر رسولؐ سے جا ملی لیکن مجھ سے اس درد کا اظہار نہیں کیا...''۔ جس جنازہ میں پورے مدینہ کو آہ وفغاں کے ساتھ جانا چاہئے تھا اس جنازہ میں انگشت شمار افراد زمانہ کی بے رخی بیان کررہے ہیں اور اس تاریخ کا تقاضہ ہے کہ فاطمہ بنت رسولؐ کی سسکیوں کے ساتھ زمانے کو بھی سسکیاں بھرنی چاہئیں۔    
منابع و حوالہ جات:
1۔سوگنامۂ آل محمدؐ۔
٢۔منتہیٰ الآمال۔
٣۔شرح نہج البلاغہ: ابن ابی الحدید معتزلی۔
٤۔الملل و النحل: شہرستانی۔
٥۔الامامة والخلافة: مقاتل بن عطیہ۔
٦۔الاستیعاب: قرطبی۔
٧۔المصنف: ابن ابی شیبہ۔
٨۔اثبات الوصیة:مسعودی۔
٩۔عقد الفرید: ابن عبد ربہ۔
١٠۔بحار الانوار: علامہ مجلسی۔
 ١١۔تاریخ الامم و الملوک: محمد بن جریر طبری۔
 ١٢۔انساب الاشراف: بلاذری۔

Saturday 18 February 2017

فاطمہ زہراؑ عالم کے لئے نمونہ عمل-مولانا غافر رضوی چھولسی

فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا،  عالم انسانیت کے لئے نمونہ عمل


مولانا سید غافر حسن رضوی چھولسی


وہ پر آشوب دور جس میں ظلم و تشدد کا دور دورہ تھا، جس میں انسانیت کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا، جس زمانہ کے ضمیر فروش بے حیا انسان کے لبادہ میں حیوان صفت افراد انسان کو زندہ در گور کر کے فخر و مباہات کیا کرتے تھے، جو عورت ذات کو ننگ و عار سمجھتے تھے، یہ وہ تشدد آمیز ماحول تھا جس میں ہر سمت ظلم و ستم کی تاریکی چھائی ہوئی تھی، اسی تاریکی کو سپیدی سحر بخشنے کے لئے افق رسالت پر خورشید عصمت طلوع ہوا جس کی کرنوں نے نگاہ عالم کو خیرہ کر دیا اسی منجلاب میں ایک گلاب کھلا جس کی خوشبو نے مشام عالم کو معطر کر دیا،  ایسے ماحول میں دختر رحمة للعالمین نے تشریف لا کر اس جاہل معاشرہ کو یہ سمجھا دیا کہ ایک لڑکی باپ کے لئے کبھی بھی سبب زحمت نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ رحمت ہوتی ہے؛ لیکن وہ حقیقت فراموش اس حقیقت کو بھلا بیٹھے تھے کہ جو وجہ خلقت انسان ہے وہ بھی ایک عورت ہے۔ فاطمہ زہراؑ دنیا میں کیا آئیں عرب معاشرہ میں ایک انقلاب برپا ہو گیا، اگر اس بات کی ان جملوں کے ذریعے وضاحت کی جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ گنگا الٹی بہنے لگی آفتاب مغرب سے طلوع ہونے لگا؛ عرش فرش اور فرش عرش سے تبدیل ہو گیا کیونکہ ایسے پر آشوب ماحول میں امن و امان ہو جانا ایک نا ممکن امر ہے۔ جو معاشرہ بیٹی کا وجود اپنے اوپر بار سمجھتا تھا وہ معاشرہ آج بیٹی کو سر کا تاج شمار کرنے لگا، جو سماج کل تک بیٹی کو منجلاب گرا دانتا تھا وہ سماج آج بیٹی کو گلاب سمجھنے لگا گویا کہ کل انسان تاریکی میں تھا فاطمہؑ کی آمد نے اس کی تاریکی کو تنویر سے بدل دیا اور زیادہ وضاحت کے لئے اس طرح تعبیر کیا جائے کہ فاطمہ زہراؑ باغ رسالت کا وہ تنہا ترین پھول ہے جس کی نظیر نا ممکن ہے پروردگار نے مردوں کی ہدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو روئے زمین پر بھیجا نبوت کے بعد سلسلہ امامت جاری کیا لیکن فاطمہ زہراؑ عالم نسواں کی تنہا ترین سردار ہیں شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
اکلوتی فاطمہ  ہیں قسم لا شریک کی
قرآن مصطفی میں   اضافہ نہ کیجئے
(نجمی فیض آبادی )
 یعنی جس طرح خدا کا کوئی ثانی نہیں اسی طرح فاطمہ بھی بے مثل ہیں جس طرح قرآن پاک میں اضافہ ممکن نہیں اسی طرح دختر رسول بھی یک و تنہا ہے شاعر نے آواز دی:
آپ ہی سورہ کوثر کی فقط ہیں مصداق
بیٹیاں  چاہے   بناتی   رہے   تاریخ   ہزار
( غاؔفر چھولسی )
تاریخ فاطمہؑ کے سوا تین بیٹیاں کیا اگر ہزار بیٹیاں بھی بتاتی رہے تو سورۂ کوثر پھر بھی فاطمہؑ کی توصیف کرتا رہے گا، یہ سورہ ایسا ہے کہ جن حضرات کو اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز تھا وہ بھی اس مختصر سورہ کے آگے منھ کی کھاتے نظر آئے یہ تو ان کا ذوق شاعری تھا کہ ایک مصرعہ کا اور اضافہ کر دیا:
انا اعطیناک الکوثر  ۔  فصل لربک وانحر
ان شانئک ھو الابتر   ۔ ما ھذا کلام البشر
یہ کلام کسی بشر کا نہیں ہے بلکہ اس سے تو خا لق بشر کی جھلک آرہی ہے چونکہ عرب کے بدّؤوں کو عورت کی قدر و منزلت معلوم نہیں تھی اسی عدم علمی کی بنیاد پر عورت کو ہر وراثت سے محروم کر دیا گیا اور جعلی حدیث لا کر خرافاتیاں شروع کر دیں کہ رسول اکرمؐ کا فرمان ہے : "نحن معاشر الانبیاء لا نورث ولا نورث"
ہم گروہ انبیاء نہ تو کسی کو وارث بناتے ہیں نہ کسی کے وارث بنتے ہیں؛ لیکن دختر رسول نے باغ فدک کے مسئلہ میں قیام کر کے یہ سمجھا دیا کہ اسلام نے عورت کو بھی وراثت سے محروم نہیں رکھا بلکہ اسلام میں عورت کا حق ہے اور ایک مقام ہے۔ کیونکہ فاطمہ زہراؑنے رسول اکرمؐ کے دہن مبارک سے یہ جملہ سنا تھا:"یا فاطمہ ان اللہ تعالیٰ امر نی ان ادفع الیک فدک … اے ( میری بیٹی ) فاطمہ مجھے پروردگار عالم نے حکم دیا ہے کہ میں باغ فدک تمہیں بخش دوں" ۔ 
اب دنیا چاہے وراثت کے سلسلہ میں چاہے کتنی ہی حدیثیں گڑھتی رہے ۔فاطمہ زہراؑ رسولؐ سے اس قدر محبت و شفقت سے پیش آتی تھیں کہ رسولؐ فرماتے نظر آئے: فاطمة ام ابیھا؛ فاطمہ اپنے باپ کی ماں ہے۔ رسولؐ نے جب فاطمہؑ میں ماں والی شفقت دیکھی توماں کہہ دیا یا شاید اسی وجہ سے رسولؐ فاطمہؑ کی تعظیم کیا کرتے تھے؛ اب اعتراض کی گنجائش باقی نہیں رہتی چونکہ ماں کی تعظیم واجب ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ یہاں ایک سوال سر اٹھائے کہ رسولؐ نے فاطمہؑ کو ماں جو کہا ہے وہ مجازاً  کہا ہے حقیقت میں ماں تو نہیں بن گئیں؟  بیٹی ہی رہیں گی اور بیٹی پر باپ کا احترام واجب ہوتا ہے نہ کہ باپ پر بیٹی کا اور یہاں منظر بالکل بر عکس نظر آرہا ہے!؛  اس جگہ پر آپ کا اعتراض بالکل صحیح ہے کیونکہ منظر واقعاً بر عکس ہے تو سن لیجئے نہ تو رسولؐ فاطمہؑ کی عزت بیٹی کی حیثیت سے کرتے تھے نہ ماں کہنے کی وجہ سے احترام کرتے تھے بلکہ رسالت تعظیمِ عصمت کے لئے کھڑی ہوتی تھی۔  رسول اسلامؐ نے فاطمہؑ کی توصیف میں ایسا ہی کہا ہے کہ فاطمہؑ اپنے باپ کی ماں ہیں۔( کتاب بشارة المصطفیٰ )
اب کلام رسول کی توجیہہ کسی بھی طرح کر لیجئے یا تو کہئے بیٹی تھیں اسی وجہ سے عزیز تھیں یا بمطابق قول رسول ماں کی حیثیت سے عزیز تھیں دوسری جگہ ارشاد فرمایا : فاطمہ کا غم و غصہ خدا کا غیظ و غضب ہے اور فاطمہ کی خوشی خوشنودی خدا ہے ۔( کتاب کنز العمال )
فاطمہ زہراؑ بحیثیت زوجہ :
فاطمہ زہراؑ بیاہ کر علی مرتضیٰؑ کے بیت الشرف میں تشریف لے گئیں دوسرے روز رسول اکرمؐ بیٹی اور داماد کی خیریت معلوم کرنے گئے ۔ علیؑ سے سوال کیا: یاعلی! تم نے فاطمہؑ کو کیسا پایا ؟ علیؑ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: یا رسول اللہ ؐ! میں نے فاطمہؑ کو عبادت پروردگار میں بہترین معین و مددگار پایا ( کتاب بحار الانوار ج٤٣ )
گویا علی یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ زوجہ قابل تعریف وہی ہے جو اطاعت شوہر کے ساتھ ساتھ مطیع پروردگار بھی ہو شاعر نے اس بات کو ایسے نظم کیا:
حسن سیرت کے لئے خوبی سیرت ہے ضرور
گل و ہی گل ہے جو خوشبو بھی دے رنگت کے سوا
 کیونکہ حسن دائمی نہیں ہوتا عمل دائمی ہوتا ہے آخرت میں دنیا وی حسن کام آنے والا نہیں بلکہ نیک اعمال ساتھ دینگے ۔ علی سے جواب دریافت کرنے کے بعد رسولؐ فاطمہؑ کی طرف متوجہ ہوئے تو عجیب منظر نظر آیا ایک شب کی بیاہی بوسیدہ لباس پہنے بیٹھی ہے!۔ رسولؐ نے سوال کیا: بیٹی! تمہارا لباس عروسی کیا ہوا، بوسیدہ لباس کیوں پہن رکھا ہے ؟ فاطمہؑ نے جواب دیا: بابا میں نے آپ کے دہن مبارک سے یہ سنا ہے کہ راہ خدا میں عزیز ترین چیز قربان کرنی چاہئے، بابا آج ایک سائل نے دروازہ پر آکر سوال کیا تھا مجھے سب سے زیادہ عزیز وہی لباس تھا بابا میں نے وہ لباس راہ خدا میں دے دیا ۔  فاطمہؑ نے اپنے چاہنے والوں کو کو درس دیا کہ خدا کو ہر حال میں یاد رکھنا چاہیئے اگر تمہارے پاس صرف دو لباس ہیں اور ان میں سے ایک زیادہ عزیز ہے تو اس لباس کو راہ خدا میں خیرات کر دو ۔
لاکھوں سلام ہو ہمارا اس شہزادی پر جس کا مہر ایک زرہ (جس کی ارزش پانچ سو درہم تھی ) اور ایک کتان کا بنا ہوا معمولی ترین لباس اور ایک رنگی ہوئی گوسفند کی کھال …تھا( وافی کتاب النکاح ) فاطمہؑ کا یہ معمولی سا مہر خواتینِ عالم کو درسِ قناعت دے رہا ہے کہ جتنا بھی ملے اس پر شکر خدا کر کے راضی رہنا چاہئے، یہی وجہ تھی کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا : میری امت کی بہترین خواتین وہ ہیں جن کا مہر کم ہو۔( وافی کتاب النکاح )
مصحف ناطق امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرماتے ہیں : کسی خاتون کا مہر زیادہ ہونا باعث فضیلت نہیں  بلکہ قابل مذمت ہے ، مہر کا کم ہونا باعث عزت و شرافت ہے ۔( وافی کتاب النکاح )
لیکن ہزار حیف امت رسول کو کیا ہوگیا ؟ بیٹی کے گھر والے یہ سوچ کر مہر زیادہ معین کرتے ہیں کہ مہر زیادہ رہے گا تو لڑکا اس کے وزن میں دبا رہے گا اور ہماری لڑکی طلاق سے محفوظ رہے گی اور جب مہر معین پر لڑکے سے معلوم کیا جاتا ہے کہ کیا تم اس مہر پر راضی ہو تو لڑکا یہ سوچ کر جواب اثبات میں سر ہلا دیتا ہے کہ دینا تو ہے ہی نہیں ہاں کرنے میں کیا جاتا ہے۔ لیکن عزیزو ! مہر واجب الادا ہوتا ہے، صرف سر ہلانے سے کام چلنے والا نہیں ہے بلکہ عمل کا جامہ پہنانا واجب و لازم ہے ۔ جس طرح فاطمہؑ کا مختصر سا مہر تھا اسی طرح جہیز بھی مختصر سا تھا اس زمانہ ( حال حاضر ) کے اعتبار سے تو بہت ہی کم نظر آتا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ زمانے کے کچھ تقاضے ہوا کرتے ہیں، وقت بھی کچھ اقتضا کرتا ہے لیکن … اساس شریعت اسلام عقل و شعور ہے، کسی بھی حال میں عقل سلیم اس بات کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرتی کہ اپنے دولت خانہ کو غریب خانہ بنا کر دوسرے کے گھر کو دولت کدہ بنا دیا جائے بلکہ زمانہ اور وقت چاہے کتنے ہی چیختے چلاتے رہیں لیکن عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ خوش و خرم اپنی حیثیت کے مطابق لڑکی کو جہیز دیا جائے۔ ہمارے معاشرہ میں مثال مشہور ہے:  پیر صرف اتنے پھیلانے چاہئیں جتنی وسیع چادر ہو، اگر وسعت سے زیادہ پیر پھیلائیں گے تو اس کا نتیجہ واضح ہے ۔ 
فاطمہ ز ہرا ؑبحیثیت مادر :
چونکہ پروردگار عالم کا یہ مصمم ارادہ تھا کہ پیشوائے دین اور خلفائے رسولؐ صدیقۂ طاہرہ کی نسل سے ہوں اسی لئے آپؑ کی سب سے بڑی اور سخت ذمہ داری تربیت اولاد تھی ، تربیت اولادظاہر میں ایک مختصر سا جملہ ہے لیکن اس میں بہت مہم اور وسیع معنی مخفی ہیں ۔ تربیت صرف اسی کا نام نہیں ہے کہ اولاد کے لئے لوازم زندگی اور عیش و آرام فراہم کر دئے جائیں اور بس … بلکہ یہ لفظ والدین کو ان کے ایک عظیم وظیفہ کا مسئول قرار دیتا ہے ۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے اولاد کا کسی عہدہ پر فائز ہونا بھی تربیت والدین کا مرہون منت ہے۔ فاطمہؑ اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ انھیں اماموں کی پرورش کرنی ہے، ایسے بچوں کی پرورش کرنی ہے کہ اگر اسلام صلح و آشتی سے محفوظ رہتا ہے تو صلح کریں اور اگر اسلام کی حفاظت جنگ کے ذریعہ ہو رہی ہے تو جہاد فی سبیل اللہ کے لئے قیام کریں چاہے ظہر سے عصر تک بھرا گھر اجڑ جائے لیکن اسلام پر آنچ نہ آئے؛ اگر اسلام ان کے گھر انہ کے برہنہ سر ہونے سے محفوظ رہتا ہے تو سر کی چادر کو عزیز نہ سمجھیں۔ عزیزو!  دوستو ! فاطمہؑ ان کوتاہ فکر خواتین میں سے نہیں تھیں کہ جو گھر کے ماحول کو معمولی شمار کرتی ہیں بلکہ آپؑ گھر کے ماحول کو بہت بڑا اور حساس گردانتی تھیں، آپ کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی درسگاہ آغوش مادر تھی، اس کے بعد گھر کا ماحول اور صحن خانہ بچوں کے لئے عظیم مدرسہ تھا ، ایسا نہ ہو ہم خود کو ان کا شیعہ شمار کرتے رہیں لیکن ان کی سیرت سے دور دور تک تعلق نہ ہو ان کے احکام و فرامین پس پشت ڈال دیں۔
پروردگار ہمیں سیرت اہل بیت علیہم السلام پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرما ۔
آمین والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ 
کاوش : سید غافر حسن رضوی چھولسی
نزیل  قم المقدسہ (ایران)


Wednesday 25 January 2017

وطن کے عنوان سے بہترین اشعار

*🇮🇳وطن کے عنوان سے بہترین اشعار🇮🇳*

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

                                *(علامہ اقبال)*
📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

                               *(افتخار عارف)*
📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚
الفتیں رشتوں کے دھاگے میں پروتا ہے وطن
بہتے دریاؤں کو کوزہ میں سموتا ہے وطن

              *(غافر رضوی فلک چھولسی)*
📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚
اے خاک وطن اب تو وفاؤں کا صلا دے
میں ٹوٹتی سانسوں کی فصیلوں پہ کھڑا ہوں

                      *(جاوید اکرام فاروقی)*
📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚
اے خاک وطن تجھ سے میں شرمندہ بہت ہوں
مہنگائی کے موسم میں یہ تہوار پڑا ہے

                                     *(منور رانا)*
📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚
اے وطن جب بھی سر دشت کوئی پھول کھلا
دیکھ کر تیرے شہیدوں کی نشانی رویا

                                 *(جعفر طاہر)*
📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی

                             *(لال چند فلک)*
📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚
ہم اہل قفس تنہا بھی نہیں ہر روز نسیم صبح وطن
یادوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جاتی ہے

                      *(فیض احمد فیض)*
📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚
ہم بھی ترے بیٹے ہیں ذرا دیکھ ہمیں بھی
اے خاک وطن تجھ سے شکایت نہیں کرتے

                           *(خورشید اکبر)*
📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚
ہم خون کی قسطیں تو کئی دے چکے لیکن
اے خاک وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا

                               *(والی آسی)*
📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚
جوانو نذر دے دو اپنے خون دل کا ہر قطرہ
لکھا جائے گا ہندوستان کو فرمان آزادی

                    *(نازش پرتاپ گڑھی)*
📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚
ہم نے سینچا ہے لہو دیکے تیرے گلشن کو
اے وطن ہم کبھی غدار نہیں ہو سکتے

                            *(امید اعظمی)*
📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚
خوں شہیدان وطن کا رنگ لا کر ہی رہا
آج یہ جنت نشاں ہندوستاں آزاد ہے

                           *(امین سلونی)*
📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚
لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے
اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی

                   *(فراق گورکھپوری)*
📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

                 *(بسمل  عظیم آبادی)*
📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚
تن من مٹائے جاؤ تم نام قومیت پر
راہ وطن پر اپنی جانیں لڑائے جاؤ

                         *(لال چند فلک)*
📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚
پھر دیار ہند کو آباد کرنے کے لئے
جھوم کر اٹھو وطن آزاد کرنے کے لئے

                       *(الطاف مشہدی)*
📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚

Featured Post

PAYAM E ISLAM Foundation is now available on YOUTUBE...

Salamun alaikum... The insitute PAYAM E ISLAM Foundation is now available serving ISLAM on YOUTUBE... The main objectives are:- 💡Deep ...

Popular Posts