Monday 20 February 2017

سسکیاں


سسکیاں

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

8/3/2016

گوشِ دل کی سماعت کو اپنے ہوش و حواس کھونے کا خطرہ لاحق ہونے لگا...، عجیب قسم کی اداسی ہے...، ہر سمت اداسی ہی اداسی!، جو کسی مظلوم کے شکستہ دل کی عکاسی کر رہی ہے...۔  کیا یہ مدینہ کی وہی گلیاں نہیں ہیں جس کی خاک محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ کی قدم بوسی کرکے فخر و مباہات کیا کرتی تھی!۔
یہ جان لیوا سناٹا کیوں چھایا ہوا ہے؟ کیا مدینے کے رہنے والے سب لوگ خدا کو پیارے ہوگئے! ،   نہیں... سب لوگ زندہ ہیں، خدا کو پیارا تو صرف خدا کا پیارا حبیب ہوا ہے۔
لیکن... اس بات کا کیا مطلب ہے کہ جس گھر سے جنازہ اٹھا ہے وہاں سے دھواں اٹھتا نظر آرہا ہے؟ کیا رسول کی پارۂ جگر عرب کی رسومات بھول چکی ہیں کہ جس گھر میں موت ہوجائے اس گھر میں چولہانہیں جلایاجاتا!، جی نہیں! یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے بیت الشرف میں چولہا روشن نہیں ہے... ذراعقل و خرد کو استعمال کرنے کی کوشش کیجئے... کیا ایک چولہا جلنے سے اتنا زیادہ دھواں اٹھے گا کہ آسمان سے باتیں کرسکے...!!۔  ذرا در رسول صلی اللہ علیہ وآلہ پر جاکر ماجرا دیکھنے کی کوشش کیجئے... یہ چولہا روشن نہیں ہے بلکہ اس دروازہ میں آگ لگی ہوئی ہے جس پر ہر روز خدا کا رسولؐ سلام کیا کرتا تھا... ابھی تو پیغمبر خداؐ کی رحلت کو زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا کہ... دروازہ میں آگ... اللہ اکبر... ۔
یہ مدینہ کے سناٹے میں سسکیوں کی صدائیں کیسی...؟ یہ کیسا سوال ہے!، جب آپ کو معلوم ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ دار فانی سے دار باقی کی جانب کوچ کرچکے ہیں تو کیا ایک چہیتی بیٹی کی سسکیاں سنائی نہیں دیں گی!!۔
جی ہاں!باپ کی مصیبت پر نالہ و فریاد کرنا ہر بیٹی کا حق ہوتا ہے لیکن...یہ مرثیہ کیسا:
 ''بابا تمہارے بعد پڑیں وہ مصیبتیں ... دن پر اگر وہ پڑتیں بدل جاتا رات میں''
آخر اس مرثیہ کا سبب کیا ہے؟ رسولؐ کی چہیتی بیٹی کی زبان پر درد بھرے فقروں کا آنا بے معنی و بے مفہوم نہیں ہے... جب ان مصائب پر تاریخ کی نظر جاتی ہے تو خود تاریخ بھی لہو رونے لگتی ہے... تاریخ کی نظروں کو وہ سانحہ بھلائے نہیں بھولتا جب راتوں کے سناٹوں میں تمام اہالی مدینہ چین و سکون سے آرام کی نیند سورہے تھے لیکن ایک مظلومہ تھی جس کے نالے اہل مدینہ کے آرام میں خلل ڈال رہے تھے، یہ بیٹی کتنی مظلوم تھی کہ باپ کی یادمیں رونے سے بھی لوگوں کی نیند میں خلل پڑ رہا تھا!۔ یہ وہ بی بی ہے جس کے پہلو پر جلتا ہوا دروازہ گرایا گیا، یہ وہ بی بی ہے جس کے شکم میں دنیا کی بہاریں دیکھنے سے قبل ہی ایک بہار، نذر خزاں ہوگئی...۔ یہ وہ مظلوم بی بی ہے کہ جب جلتا ہوا دروازہ پہلو پر گرایا گیا تو اپنے شوہر کو بھی مدد کے لئے نہ پکارسکی بلکہ اپنی کنیز کو مدد کے لئے بلایا: اے فضہ آؤ میری مدد کرو، میرے شکم میں میرا محسن شہید ہوگیا... یہ وہ مظلوم بی بی ہے جس نے اپنے غیور شوہر کے گلے میں ریسمانِ ظلم دیکھی!۔  کیا اس تناظر میں اس بی بی کو اتنا حق بھی حاصل نہیں کہ وہ اپنی سسکیوں سے قصر باطل کولرزا سکے!!۔  کیا کوئی انسان اس مظلومہ کو دیکھ کر یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ شہزادی اپنی حیات کی اٹھارہویں بہار دیکھ رہی ہے! کیا اٹھارہ سال کی نوجوان لڑکی ایسی ہی ہوتی ہے... کمر خمیدہ ہوچکی ہے... سر کے بال سفید ہوچکے ہیں... ہاتھوں میں عصا لیکر چلتی ہے... کیا اب بھی آپ یہی کہیں گے کہ یہ بی بی سسکیاں کیوں لے رہی ہے...!!۔  ہر معاشرہ کا یہ دستور ہوتا ہے کہ مرنے والے کے گھر تعزیت پیش کرنے کو آتے ہیں لیکن یہ معاشرہ کیسا ہے... کیا حضور اکرمؐ نے اپنی حیات میں حکم خداوندی کے تحت یہ نہیں فرمایا کہ میرا اجر رسالت یہی ہے کہ میرے قرابتداروں سے مودت اختیار کرو! کیا اجر رسالت کی ادائیگی کا یہی طریقہ تھا جو رسولؐ کی رحلت کے بعد اپنایا گیا!۔  یہ ایسے حقائق ہیں جن سے کوئی مورخ آنکھیں نہیں چرا سکتا کیونکہ تاریخ اس کی آنکھیں نکال لے گی...۔  یہ مصائب کے تمام پہلو تاریخ میں ایک مظلومہ کی مظلومی کو ببانگ دہل بیان کرتے ہیں جن کی بنا پر یہ سسکیاں کوئی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت پر مشتمل وہ اظہار غم ہے جو عالم بشریت کو سوچنے پر مجبور کردے!۔  ان سسکیوں نے تو تاریخ کو بھی سسکیاں لینے پر مجبور کردیا... ان سسکیوں کا تانتا اس وقت تک بندھا رہا جب تک روح قفس عنصری سے پرواز نہ کرگئی...۔  یکبارگی تسبیح و تہلیل کی آواز بند ہوئی، اسمیٰ نے چیخ مارکر گریہ کرنا چاہا لیکن حالات کے پیش نظر آواز گلے میں گھٹ کر رہ گئی... آخر اس مظلومہ نے کتنے ستم سہے تھے کہ غسل وکفن اور دفن کی وصیت بھی کی تو رات کے لئے... یاعلی مجھے رات میں غسل دیجئے گا، یاعلی مجھے رات میں کفن دیجئے گا، یاعلی مجھے رات میں دفن کیجئے گا... ''۔ زبان حال سے شہزادیؑ اپنے شوہرِ نامدار سے وصیت کررہی تھیں:
"برما رہی ہیں قلب کو ان کی وصیتیں  ...غسل وکفن ہو میرا اندھیروں کے سائے میں ''
 وصیت پر عمل کرتے ہوئے علیؑ نے جنازہ کو غسل دینا چاہا تو علیؑ جیسا صابر بھی چیخ مارکر رودیا! اس صابر نے ایسا کیا دیکھ لیا کہ دامن صبر چھوٹ گیا! پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا!! مزاج شناسِ امامت ''سلمان فارسی'' ہاتھوں کو جوڑکر آگے بڑھے... مولا!... اس چیخ کا سبب...؟ مولا نے آنسو صاف کرتے ہوئے جواب دیا: ''سلمان!... بنت رسولؐ بہت صابرہ تھی، اپنے شکستہ پہلو کو لے کر رسولؐ سے جا ملی لیکن مجھ سے اس درد کا اظہار نہیں کیا...''۔ جس جنازہ میں پورے مدینہ کو آہ وفغاں کے ساتھ جانا چاہئے تھا اس جنازہ میں انگشت شمار افراد زمانہ کی بے رخی بیان کررہے ہیں اور اس تاریخ کا تقاضہ ہے کہ فاطمہ بنت رسولؐ کی سسکیوں کے ساتھ زمانے کو بھی سسکیاں بھرنی چاہئیں۔    
منابع و حوالہ جات:
1۔سوگنامۂ آل محمدؐ۔
٢۔منتہیٰ الآمال۔
٣۔شرح نہج البلاغہ: ابن ابی الحدید معتزلی۔
٤۔الملل و النحل: شہرستانی۔
٥۔الامامة والخلافة: مقاتل بن عطیہ۔
٦۔الاستیعاب: قرطبی۔
٧۔المصنف: ابن ابی شیبہ۔
٨۔اثبات الوصیة:مسعودی۔
٩۔عقد الفرید: ابن عبد ربہ۔
١٠۔بحار الانوار: علامہ مجلسی۔
 ١١۔تاریخ الامم و الملوک: محمد بن جریر طبری۔
 ١٢۔انساب الاشراف: بلاذری۔

Saturday 18 February 2017

فاطمہ زہراؑ عالم کے لئے نمونہ عمل-مولانا غافر رضوی چھولسی

فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا،  عالم انسانیت کے لئے نمونہ عمل


مولانا سید غافر حسن رضوی چھولسی


وہ پر آشوب دور جس میں ظلم و تشدد کا دور دورہ تھا، جس میں انسانیت کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا، جس زمانہ کے ضمیر فروش بے حیا انسان کے لبادہ میں حیوان صفت افراد انسان کو زندہ در گور کر کے فخر و مباہات کیا کرتے تھے، جو عورت ذات کو ننگ و عار سمجھتے تھے، یہ وہ تشدد آمیز ماحول تھا جس میں ہر سمت ظلم و ستم کی تاریکی چھائی ہوئی تھی، اسی تاریکی کو سپیدی سحر بخشنے کے لئے افق رسالت پر خورشید عصمت طلوع ہوا جس کی کرنوں نے نگاہ عالم کو خیرہ کر دیا اسی منجلاب میں ایک گلاب کھلا جس کی خوشبو نے مشام عالم کو معطر کر دیا،  ایسے ماحول میں دختر رحمة للعالمین نے تشریف لا کر اس جاہل معاشرہ کو یہ سمجھا دیا کہ ایک لڑکی باپ کے لئے کبھی بھی سبب زحمت نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ رحمت ہوتی ہے؛ لیکن وہ حقیقت فراموش اس حقیقت کو بھلا بیٹھے تھے کہ جو وجہ خلقت انسان ہے وہ بھی ایک عورت ہے۔ فاطمہ زہراؑ دنیا میں کیا آئیں عرب معاشرہ میں ایک انقلاب برپا ہو گیا، اگر اس بات کی ان جملوں کے ذریعے وضاحت کی جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ گنگا الٹی بہنے لگی آفتاب مغرب سے طلوع ہونے لگا؛ عرش فرش اور فرش عرش سے تبدیل ہو گیا کیونکہ ایسے پر آشوب ماحول میں امن و امان ہو جانا ایک نا ممکن امر ہے۔ جو معاشرہ بیٹی کا وجود اپنے اوپر بار سمجھتا تھا وہ معاشرہ آج بیٹی کو سر کا تاج شمار کرنے لگا، جو سماج کل تک بیٹی کو منجلاب گرا دانتا تھا وہ سماج آج بیٹی کو گلاب سمجھنے لگا گویا کہ کل انسان تاریکی میں تھا فاطمہؑ کی آمد نے اس کی تاریکی کو تنویر سے بدل دیا اور زیادہ وضاحت کے لئے اس طرح تعبیر کیا جائے کہ فاطمہ زہراؑ باغ رسالت کا وہ تنہا ترین پھول ہے جس کی نظیر نا ممکن ہے پروردگار نے مردوں کی ہدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو روئے زمین پر بھیجا نبوت کے بعد سلسلہ امامت جاری کیا لیکن فاطمہ زہراؑ عالم نسواں کی تنہا ترین سردار ہیں شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
اکلوتی فاطمہ  ہیں قسم لا شریک کی
قرآن مصطفی میں   اضافہ نہ کیجئے
(نجمی فیض آبادی )
 یعنی جس طرح خدا کا کوئی ثانی نہیں اسی طرح فاطمہ بھی بے مثل ہیں جس طرح قرآن پاک میں اضافہ ممکن نہیں اسی طرح دختر رسول بھی یک و تنہا ہے شاعر نے آواز دی:
آپ ہی سورہ کوثر کی فقط ہیں مصداق
بیٹیاں  چاہے   بناتی   رہے   تاریخ   ہزار
( غاؔفر چھولسی )
تاریخ فاطمہؑ کے سوا تین بیٹیاں کیا اگر ہزار بیٹیاں بھی بتاتی رہے تو سورۂ کوثر پھر بھی فاطمہؑ کی توصیف کرتا رہے گا، یہ سورہ ایسا ہے کہ جن حضرات کو اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز تھا وہ بھی اس مختصر سورہ کے آگے منھ کی کھاتے نظر آئے یہ تو ان کا ذوق شاعری تھا کہ ایک مصرعہ کا اور اضافہ کر دیا:
انا اعطیناک الکوثر  ۔  فصل لربک وانحر
ان شانئک ھو الابتر   ۔ ما ھذا کلام البشر
یہ کلام کسی بشر کا نہیں ہے بلکہ اس سے تو خا لق بشر کی جھلک آرہی ہے چونکہ عرب کے بدّؤوں کو عورت کی قدر و منزلت معلوم نہیں تھی اسی عدم علمی کی بنیاد پر عورت کو ہر وراثت سے محروم کر دیا گیا اور جعلی حدیث لا کر خرافاتیاں شروع کر دیں کہ رسول اکرمؐ کا فرمان ہے : "نحن معاشر الانبیاء لا نورث ولا نورث"
ہم گروہ انبیاء نہ تو کسی کو وارث بناتے ہیں نہ کسی کے وارث بنتے ہیں؛ لیکن دختر رسول نے باغ فدک کے مسئلہ میں قیام کر کے یہ سمجھا دیا کہ اسلام نے عورت کو بھی وراثت سے محروم نہیں رکھا بلکہ اسلام میں عورت کا حق ہے اور ایک مقام ہے۔ کیونکہ فاطمہ زہراؑنے رسول اکرمؐ کے دہن مبارک سے یہ جملہ سنا تھا:"یا فاطمہ ان اللہ تعالیٰ امر نی ان ادفع الیک فدک … اے ( میری بیٹی ) فاطمہ مجھے پروردگار عالم نے حکم دیا ہے کہ میں باغ فدک تمہیں بخش دوں" ۔ 
اب دنیا چاہے وراثت کے سلسلہ میں چاہے کتنی ہی حدیثیں گڑھتی رہے ۔فاطمہ زہراؑ رسولؐ سے اس قدر محبت و شفقت سے پیش آتی تھیں کہ رسولؐ فرماتے نظر آئے: فاطمة ام ابیھا؛ فاطمہ اپنے باپ کی ماں ہے۔ رسولؐ نے جب فاطمہؑ میں ماں والی شفقت دیکھی توماں کہہ دیا یا شاید اسی وجہ سے رسولؐ فاطمہؑ کی تعظیم کیا کرتے تھے؛ اب اعتراض کی گنجائش باقی نہیں رہتی چونکہ ماں کی تعظیم واجب ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ یہاں ایک سوال سر اٹھائے کہ رسولؐ نے فاطمہؑ کو ماں جو کہا ہے وہ مجازاً  کہا ہے حقیقت میں ماں تو نہیں بن گئیں؟  بیٹی ہی رہیں گی اور بیٹی پر باپ کا احترام واجب ہوتا ہے نہ کہ باپ پر بیٹی کا اور یہاں منظر بالکل بر عکس نظر آرہا ہے!؛  اس جگہ پر آپ کا اعتراض بالکل صحیح ہے کیونکہ منظر واقعاً بر عکس ہے تو سن لیجئے نہ تو رسولؐ فاطمہؑ کی عزت بیٹی کی حیثیت سے کرتے تھے نہ ماں کہنے کی وجہ سے احترام کرتے تھے بلکہ رسالت تعظیمِ عصمت کے لئے کھڑی ہوتی تھی۔  رسول اسلامؐ نے فاطمہؑ کی توصیف میں ایسا ہی کہا ہے کہ فاطمہؑ اپنے باپ کی ماں ہیں۔( کتاب بشارة المصطفیٰ )
اب کلام رسول کی توجیہہ کسی بھی طرح کر لیجئے یا تو کہئے بیٹی تھیں اسی وجہ سے عزیز تھیں یا بمطابق قول رسول ماں کی حیثیت سے عزیز تھیں دوسری جگہ ارشاد فرمایا : فاطمہ کا غم و غصہ خدا کا غیظ و غضب ہے اور فاطمہ کی خوشی خوشنودی خدا ہے ۔( کتاب کنز العمال )
فاطمہ زہراؑ بحیثیت زوجہ :
فاطمہ زہراؑ بیاہ کر علی مرتضیٰؑ کے بیت الشرف میں تشریف لے گئیں دوسرے روز رسول اکرمؐ بیٹی اور داماد کی خیریت معلوم کرنے گئے ۔ علیؑ سے سوال کیا: یاعلی! تم نے فاطمہؑ کو کیسا پایا ؟ علیؑ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: یا رسول اللہ ؐ! میں نے فاطمہؑ کو عبادت پروردگار میں بہترین معین و مددگار پایا ( کتاب بحار الانوار ج٤٣ )
گویا علی یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ زوجہ قابل تعریف وہی ہے جو اطاعت شوہر کے ساتھ ساتھ مطیع پروردگار بھی ہو شاعر نے اس بات کو ایسے نظم کیا:
حسن سیرت کے لئے خوبی سیرت ہے ضرور
گل و ہی گل ہے جو خوشبو بھی دے رنگت کے سوا
 کیونکہ حسن دائمی نہیں ہوتا عمل دائمی ہوتا ہے آخرت میں دنیا وی حسن کام آنے والا نہیں بلکہ نیک اعمال ساتھ دینگے ۔ علی سے جواب دریافت کرنے کے بعد رسولؐ فاطمہؑ کی طرف متوجہ ہوئے تو عجیب منظر نظر آیا ایک شب کی بیاہی بوسیدہ لباس پہنے بیٹھی ہے!۔ رسولؐ نے سوال کیا: بیٹی! تمہارا لباس عروسی کیا ہوا، بوسیدہ لباس کیوں پہن رکھا ہے ؟ فاطمہؑ نے جواب دیا: بابا میں نے آپ کے دہن مبارک سے یہ سنا ہے کہ راہ خدا میں عزیز ترین چیز قربان کرنی چاہئے، بابا آج ایک سائل نے دروازہ پر آکر سوال کیا تھا مجھے سب سے زیادہ عزیز وہی لباس تھا بابا میں نے وہ لباس راہ خدا میں دے دیا ۔  فاطمہؑ نے اپنے چاہنے والوں کو کو درس دیا کہ خدا کو ہر حال میں یاد رکھنا چاہیئے اگر تمہارے پاس صرف دو لباس ہیں اور ان میں سے ایک زیادہ عزیز ہے تو اس لباس کو راہ خدا میں خیرات کر دو ۔
لاکھوں سلام ہو ہمارا اس شہزادی پر جس کا مہر ایک زرہ (جس کی ارزش پانچ سو درہم تھی ) اور ایک کتان کا بنا ہوا معمولی ترین لباس اور ایک رنگی ہوئی گوسفند کی کھال …تھا( وافی کتاب النکاح ) فاطمہؑ کا یہ معمولی سا مہر خواتینِ عالم کو درسِ قناعت دے رہا ہے کہ جتنا بھی ملے اس پر شکر خدا کر کے راضی رہنا چاہئے، یہی وجہ تھی کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا : میری امت کی بہترین خواتین وہ ہیں جن کا مہر کم ہو۔( وافی کتاب النکاح )
مصحف ناطق امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرماتے ہیں : کسی خاتون کا مہر زیادہ ہونا باعث فضیلت نہیں  بلکہ قابل مذمت ہے ، مہر کا کم ہونا باعث عزت و شرافت ہے ۔( وافی کتاب النکاح )
لیکن ہزار حیف امت رسول کو کیا ہوگیا ؟ بیٹی کے گھر والے یہ سوچ کر مہر زیادہ معین کرتے ہیں کہ مہر زیادہ رہے گا تو لڑکا اس کے وزن میں دبا رہے گا اور ہماری لڑکی طلاق سے محفوظ رہے گی اور جب مہر معین پر لڑکے سے معلوم کیا جاتا ہے کہ کیا تم اس مہر پر راضی ہو تو لڑکا یہ سوچ کر جواب اثبات میں سر ہلا دیتا ہے کہ دینا تو ہے ہی نہیں ہاں کرنے میں کیا جاتا ہے۔ لیکن عزیزو ! مہر واجب الادا ہوتا ہے، صرف سر ہلانے سے کام چلنے والا نہیں ہے بلکہ عمل کا جامہ پہنانا واجب و لازم ہے ۔ جس طرح فاطمہؑ کا مختصر سا مہر تھا اسی طرح جہیز بھی مختصر سا تھا اس زمانہ ( حال حاضر ) کے اعتبار سے تو بہت ہی کم نظر آتا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ زمانے کے کچھ تقاضے ہوا کرتے ہیں، وقت بھی کچھ اقتضا کرتا ہے لیکن … اساس شریعت اسلام عقل و شعور ہے، کسی بھی حال میں عقل سلیم اس بات کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرتی کہ اپنے دولت خانہ کو غریب خانہ بنا کر دوسرے کے گھر کو دولت کدہ بنا دیا جائے بلکہ زمانہ اور وقت چاہے کتنے ہی چیختے چلاتے رہیں لیکن عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ خوش و خرم اپنی حیثیت کے مطابق لڑکی کو جہیز دیا جائے۔ ہمارے معاشرہ میں مثال مشہور ہے:  پیر صرف اتنے پھیلانے چاہئیں جتنی وسیع چادر ہو، اگر وسعت سے زیادہ پیر پھیلائیں گے تو اس کا نتیجہ واضح ہے ۔ 
فاطمہ ز ہرا ؑبحیثیت مادر :
چونکہ پروردگار عالم کا یہ مصمم ارادہ تھا کہ پیشوائے دین اور خلفائے رسولؐ صدیقۂ طاہرہ کی نسل سے ہوں اسی لئے آپؑ کی سب سے بڑی اور سخت ذمہ داری تربیت اولاد تھی ، تربیت اولادظاہر میں ایک مختصر سا جملہ ہے لیکن اس میں بہت مہم اور وسیع معنی مخفی ہیں ۔ تربیت صرف اسی کا نام نہیں ہے کہ اولاد کے لئے لوازم زندگی اور عیش و آرام فراہم کر دئے جائیں اور بس … بلکہ یہ لفظ والدین کو ان کے ایک عظیم وظیفہ کا مسئول قرار دیتا ہے ۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے اولاد کا کسی عہدہ پر فائز ہونا بھی تربیت والدین کا مرہون منت ہے۔ فاطمہؑ اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ انھیں اماموں کی پرورش کرنی ہے، ایسے بچوں کی پرورش کرنی ہے کہ اگر اسلام صلح و آشتی سے محفوظ رہتا ہے تو صلح کریں اور اگر اسلام کی حفاظت جنگ کے ذریعہ ہو رہی ہے تو جہاد فی سبیل اللہ کے لئے قیام کریں چاہے ظہر سے عصر تک بھرا گھر اجڑ جائے لیکن اسلام پر آنچ نہ آئے؛ اگر اسلام ان کے گھر انہ کے برہنہ سر ہونے سے محفوظ رہتا ہے تو سر کی چادر کو عزیز نہ سمجھیں۔ عزیزو!  دوستو ! فاطمہؑ ان کوتاہ فکر خواتین میں سے نہیں تھیں کہ جو گھر کے ماحول کو معمولی شمار کرتی ہیں بلکہ آپؑ گھر کے ماحول کو بہت بڑا اور حساس گردانتی تھیں، آپ کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی درسگاہ آغوش مادر تھی، اس کے بعد گھر کا ماحول اور صحن خانہ بچوں کے لئے عظیم مدرسہ تھا ، ایسا نہ ہو ہم خود کو ان کا شیعہ شمار کرتے رہیں لیکن ان کی سیرت سے دور دور تک تعلق نہ ہو ان کے احکام و فرامین پس پشت ڈال دیں۔
پروردگار ہمیں سیرت اہل بیت علیہم السلام پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرما ۔
آمین والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ 
کاوش : سید غافر حسن رضوی چھولسی
نزیل  قم المقدسہ (ایران)


Featured Post

PAYAM E ISLAM Foundation is now available on YOUTUBE...

Salamun alaikum... The insitute PAYAM E ISLAM Foundation is now available serving ISLAM on YOUTUBE... The main objectives are:- 💡Deep ...

Popular Posts