علمائے چھولس سادات
سرزمین چھولس سے کافی تعداد میں علماء، خطباء، ذاکرین، ڈاکٹر اور انجینیئر وغیرہ معرض وجود میں آئے ہیں۔
چھولس سادات کا مختصر تعارف:
چھولس(Chhaulas)، ایک تاریخی بستی ہے جو سادات کی بستی کہلاتی ہے؛ اس بستی کے سادات، ایران کے شہر "سبزوار" سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ اس بستی کے مورث اعلیٰ سبزوار سے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے سرزمین چھولس سادات پر قیام پذیر ہوئے تھے۔ یہ بستی پہلے تو ضلع بلند شہر میں واقع تھی اس کے بعد غازی آباد اور حال حاضر میں یہ بستی ضلع گوتم بدھ نگر (نوئیڈا) میں شمار ہوتی ہے۔
جغرافیائی اعتبار سے چھولس سادات:
جغرافیائی اعتبار سے چھولس سادات ، دہلی سے پچاس کیلو میٹر؛ غازی آباد سے اکتیس کیلو میٹراور دادری سے تیرہ کیلو میٹر مشرق کی طرف۔ نیز بلند شہر سے اٹھائیس کیلو میٹر اورسکندرآباد سے تیرہ کیلو میٹر مغرب کی طرف واقع ہے۔ دادری اور سکندرآباد کے درمیان ایک نہر کا پُل ہے جس کو ''کوٹ کا پُل'' کہتے ہیں اس پُل سے ساڑھے چار کیلو میٹر شمال(اتر)کی طرف واقع ہونے والی بستی کا نام ''چھولس سادات'' ہے۔ (گلستان رضویہ؛ ص14)
چونکہ یہ بستی کافی مشہور ہے اور اس کی یہ شہرت علما ءو ذاکرین کی مرہونِ منت ہے تو فعال ادارہ "پیام اسلام فاؤنڈیشن" کے ممبروں نے یہ سوچا کہ علمائے چھولس سادات کے نام سے ایک مضمون تخلیق کیا جائے تاکہ اس بستی کو زیادہ سے زیادہ متعارف کرایا جائے اور تمام لوگوں کے لئے اس بستی کے علمائے اعلام کا تعارف کرایا جاسکے۔
اگر چھولس سادات کے شجرہ کا مطالعہ کیا جائے تو شجرہ کے شروع سے آخر تک کافی تعداد میں علمائے اعلام کا وجود ملتا ہے، ہمارے مطالعہ کے اعتبار سے تقریباً چالیس علمائے اعلام کے اسمائے گرامی شجرہ چھولس سادات میں نظر آتے ہیں۔(گلستان رضویہ؛ از اول تا آخر شجرہ)۔ عین ممکن ہے کہ مطالعہ میں کوتاہی کے سبب کچھ رد و بدل ہوگئی ہو تو ایسی صورت میں درگزر کرنے کی گزارش کرتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض علمائے اعلام کے اسمائے گرامی اس شجرہ میں موجود نہ ہوں کیونکہ یہ شجرہ سنہ 2013ء تک کی پشتوں پر منحصر ہے۔ تمام علمائے اعلام کی مکمل معلومات تو دستیاب ہونا ناممکن سا امر ہے لیکن کوشش یہی رہے گی کہ جہاں تک ممکن ہو علمائے چھولس سادات کی سوانح حیات آمادہ کی جائے۔
مولانا سید رضی عباس رضوی صاحب قبلہ چھولسی

مولانا کی ابتدائی تعلیم چھولس سادات میں ہوئی پھر مدرسہ منصبیہ میرٹھ کا رخ کیا، اسی طرح مدرسہ نورالمدارس امروہہ، مدرسہ واعظین لکھنؤ اور مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ میں زیر تعلیم رہے۔
مولانا کے مشہور و معروف اساتذہ کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں: مولانا سید مرتضیٰ حسین، مولانا سید خورشید حسین فلسفی، مولانا سید سبط نبی نجفی، مفتی سید احمد علی۔[2]
مولانا نے مدرسۃ الواعظین کے مدیر محترم نجم الملت آیۃ اللہ سید نجم الحسن رضوی کے دست مبارک سے واعظ کی سند حاصل کی نیز انہی کے دست مبارک سے تحریر شدہ اجازہ موصول کیا جس پر چند دیگر اساتذہ کرام کے دستخط بھی موجود تھے، ان میں مولانا یوسف حسین نجفی صاحب قبلہ، مولانا احمد علی صاحب قبلہ و مولانا سبط نبی صاحب قبلہ کے اسمائے گرامی سر فہرست ہیں۔
مدرسہ واعظین لکھنؤ سے فارغ ہونے کے بعد، آپ ماہ رمضان المبارک میں تبلیغ دین کی غرض سے عازم الہ آباد ہوئے۔ 1929ء سے 1930ء تک "اٹک" میں مقیم رہے اور 1931ء میں "اٹک" کے قرب و جوار میں تبلیغ اسلام کے فرائض انجام دیئے۔
وہ مومنین جو اس سے پہلے مسائل شرعی کو سلجھانے کی خاطر، علمائے اہلسنت کی جانب رجوع کرتے تھےانہیں فقہ جعفری سے آشنا کیا۔ 1933ء میں زیارات کی غرض سے سفر کیا۔ 1934ء میں دوبارہ "اٹک" تشریف لے گئے۔
"کامرہ" میں علمائے اہلسنت سے مناظرہ ہوا جس کے نتیجہ میں فخرومباہات کے ساتھ فتح و کامیابی نے قدم چوم لئے۔ اس مناظرہ کا اثر یہ دیکھا گیا کہ لوگ جوق درجوق مذہب تشیع میں داخل ہونے لگا اور شیعیت کو قبول کرنے لگے۔
"اٹک" میں جو شیعہ مسجد تھی اس کو توسیع دی، اس مسجد میں اہلسنت حضرات بھی نماز ادا کرتے تھے۔ مولانا نے توسیع کے بعد اس خوف کے پیش نظر کہ شیعہ و اہلسنت میں فساد کا سبب قرار نہ پائے، تاریخی قطعہ بھی مرقوم فرمایا جو اس طرح ہے:
"مسجد جامع سادات جلیل جس کی ہے بزم حسینیہ کفیل
فضل حق سے ہوئی تکمیل تمام شکر کیجئے رضی نیک انجام
کہیئے تاریخ بلا کاری گری مسجد حقّہ اثناء عشری"
اس تاریخی قطعہ میں "مسجد حقّہ اثناء عشری" تاریخی مادّہ ہے۔ اس قطعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مولانا موصوف شاعری کے فن میں ماہر تھے کیونکہ اس قطعہ میں مولانا کا نام "رضی" بھی موجود ہے۔
مولانا موصوف نے "اٹک" میں ایک مدرسہ بھی قائم کیا جس کا نام "مدرسہ رضویہ" رکھا۔ مولانا نے مشہور شاگردوں کے عنوان سے مولانا سید گلاب علی شاہ نقوی اور قاضی احمد حسن سرفہرست ہیں ۔[3]
آپ نے قوم تشیع کی فلاح و بہبود کے پیش نظر، ملت تشیع کے درس اخلاق کا خصوصی اہتمام کیا اور اس درس کا اثر یہ ہوا کہ دین اسلام کی ترویج و اشاعت کا مزیدزمینہ فراہم ہوگیا۔ مولانا نے سیکڑوں لوگوں کو شیعہ کیا ہے جن میں کچھ بستیوں کے تذکرہ کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
آپ نے قوم تشیع کی فلاح و بہبود کے پیش نظر، ملت تشیع کے درس اخلاق کا خصوصی اہتمام کیا اور اس درس کا اثر یہ ہوا کہ دین اسلام کی ترویج و اشاعت کا مزیدزمینہ فراہم ہوگیا۔ مولانا نے سیکڑوں لوگوں کو شیعہ کیا ہے جن میں کچھ بستیوں کے تذکرہ کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
بگھیرہ تحصیل فتح جنگ 1933م 14/ افراد کو شیعہ کیا۔ مجاھد ضلع راولپنڈی 1934م 3/ افراد کو شیعہ کیا
چکری ضلع راولپنڈی 1934م 13/ افراد کو شیعہ کیا۔ مورت تحصیل فتح گنج 1934م 17/ن افراد کو شیعہ کیا
چہان ضلع راولپنڈی 1935م 5/ افراد کو شیعہ کیا ۔[4]
سنہ 1938ء میں شکارپورضلع بلندشہر(یوپی) کے لئے عازم تبلیغ ہوئے۔ 1952ء میں دوبارہ پاکستان گئے اور گوجرانوالہ میں مقیم ہوئے۔ سنہ 1957ء میں خانہ خدا کی زیارت سے مشرف ہوئے اور حج جیسی اہم عبادت کے ارکان بجالانے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ نے متعدد مقامات پر مساجد کی توسیع فرمائی اور مختلف جگہوں پر مساجد کی بنیادیں رکھیں۔
مولانا نے ایک رسالہ لکھا جس کا عنوان "فلسفہ شہادت حسینؑ" قرار دیا۔ یہ رسالہ پہلی بار 1939ء میں ماہنامہ الواعظ میں شائع ہوا اور اس کے بعد، گوجرنوالہ میں کتابی صورت میں نشر ہوا۔ مولانا نے ہندوستان وپاکستان کے مختلف شہروں، قصبوں، دیہاتوں اور محلوں میں مجالس پڑھیں اور تقریریں کیں۔ مولانا کو عربی اور فارسی زبان پر مکمل عبور تھا ۔[5]
مولانا نے آخری دم تک تبلیغ دین اسلام سے ہاتھ نہیں اٹھایا اور آخر کار خدمت دین کرتے کرتے یہ چراغ 1409ھ مطابق 1989ء میں گل ہوگیا۔
سنہ 1938ء میں شکارپورضلع بلندشہر(یوپی) کے لئے عازم تبلیغ ہوئے۔ 1952ء میں دوبارہ پاکستان گئے اور گوجرانوالہ میں مقیم ہوئے۔ سنہ 1957ء میں خانہ خدا کی زیارت سے مشرف ہوئے اور حج جیسی اہم عبادت کے ارکان بجالانے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ نے متعدد مقامات پر مساجد کی توسیع فرمائی اور مختلف جگہوں پر مساجد کی بنیادیں رکھیں۔
مولانا نے ایک رسالہ لکھا جس کا عنوان "فلسفہ شہادت حسینؑ" قرار دیا۔ یہ رسالہ پہلی بار 1939ء میں ماہنامہ الواعظ میں شائع ہوا اور اس کے بعد، گوجرنوالہ میں کتابی صورت میں نشر ہوا۔ مولانا نے ہندوستان وپاکستان کے مختلف شہروں، قصبوں، دیہاتوں اور محلوں میں مجالس پڑھیں اور تقریریں کیں۔ مولانا کو عربی اور فارسی زبان پر مکمل عبور تھا ۔[5]
مولانا نے آخری دم تک تبلیغ دین اسلام سے ہاتھ نہیں اٹھایا اور آخر کار خدمت دین کرتے کرتے یہ چراغ 1409ھ مطابق 1989ء میں گل ہوگیا۔
***
[1] ۔ تذکرہ علماء امامیہ پاکستان، ص109۔ [2] ۔ مکتوب مولانا سید رضی عباس رضوی بنام سید محمد ثقلین کاظمی۔ [3] ۔ تذکرہ علماء امامیہ پاکستان، عارف حسین، ص109۔ [4] ۔ مکتوب مولانا سید رضی عباس رضوی بنام سید محمد ثقلین کاظمی۔ [5] ۔ تذکرہ علماء امامیہ پاکستان، ص109، 110۔ [6]بحوالہ ویکی پیڈیا: علمائے چھولس سادات۔
مولانا سید قمرالزماں رضوی صاحب قبلہ چھولسی
مولانا کا اصل نام سید رضی محمد رضوی ہے اور آپ کی عرفیت قمرالزماں (Maulana Qamruz Zama) یا زماں چھولسی ہے۔ آپ کے والد گرامی جناب سید محمد رفیع چھولسی ہیں۔ آپ 1325ہجری میں سرزمین چھولس سادات پر پیدا ہوئے اور سنہ1379 ہجری میں سرزمین لاہور(پاکستان) پر وفات پائی اور آپ کا مزار بھی لاہور میں ہی ہے اگر تاریخ کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو آپ کا مزار مومن پورہ میکلوڈ روڈ لاہور میں واقع ہے۔
آپ لاہور میں کیسے دفن ہوئے؟ اس کی تفصیلات تاریخ میں کچھ اس انداز سے دستیاب ہوئیں: آپ ہندوستان و پاکستان کی تقسیم کے بعد سنہ 1948 ء میں عازم پاکستان ہوئے اور لاہور میں قیام پذیر ہوئے۔ لاہور میں دیال سنگھ نامی کالج میں پروفیسر مقرر ہوئے ۔ آپ منطق و فلسفہ میں ماہر تھے۔آپ عربی، فارسی اور اردو میں مکمل مہارت رکھتے تھے اور ان کی مہارت کا ثبوت یہ ہے کہ آپ تینوں زبانوں میں بہترین شاعری کرتے تھے۔ (تذکرہ علماء پاکستان، سید عارف حسین نقوی، ص239 الیٰ ص241۔ بحوالہ ماہنامہ ساحل، سید امیر محمد، جولائی 1960ء کراچی۔ ڈائری، مولانا سید محمد سبطین نقوی۔ تذکرہ علمائے پنجاب، ج2، ص571۔ تذکرہ سادات جارچہ و چھولس، پروفیسر نبی ہادی چھولسی، ص266 الیٰ ص270)۔
آپ کی ابتدائی تعلیم چھولس سادات میں ہوئی اور تحتانیہ و فوقانیہ منصبیہ عربی کالج میرٹھ میں اور اس کے بعد لکھنؤ کے مشہور مدرسہ "سلطان المدارس" میں سرگرم تعلیم ہوئے۔ (تذکرہ علماء پاکستان، سید عارف حسین نقوی)
آپ کی تحریروں میں مشہور تصنیفات جن کا تذکرہ تاریخ میں ملتا ہے وہ تین تصنیفات نظر آتی ہیں: (1)راز قدرت (2)الحکمۃ المطالعہ شرح شمس البازغہ (3)ترجمہ جامع المسائل۔ پہلی دو کتابیں علم فلسفہ میں اور تیسری کتاب علم فقہ میں ہے۔
آپ لاہور میں کیسے دفن ہوئے؟ اس کی تفصیلات تاریخ میں کچھ اس انداز سے دستیاب ہوئیں: آپ ہندوستان و پاکستان کی تقسیم کے بعد سنہ 1948 ء میں عازم پاکستان ہوئے اور لاہور میں قیام پذیر ہوئے۔ لاہور میں دیال سنگھ نامی کالج میں پروفیسر مقرر ہوئے ۔ آپ منطق و فلسفہ میں ماہر تھے۔آپ عربی، فارسی اور اردو میں مکمل مہارت رکھتے تھے اور ان کی مہارت کا ثبوت یہ ہے کہ آپ تینوں زبانوں میں بہترین شاعری کرتے تھے۔ (تذکرہ علماء پاکستان، سید عارف حسین نقوی، ص239 الیٰ ص241۔ بحوالہ ماہنامہ ساحل، سید امیر محمد، جولائی 1960ء کراچی۔ ڈائری، مولانا سید محمد سبطین نقوی۔ تذکرہ علمائے پنجاب، ج2، ص571۔ تذکرہ سادات جارچہ و چھولس، پروفیسر نبی ہادی چھولسی، ص266 الیٰ ص270)۔
آپ کی ابتدائی تعلیم چھولس سادات میں ہوئی اور تحتانیہ و فوقانیہ منصبیہ عربی کالج میرٹھ میں اور اس کے بعد لکھنؤ کے مشہور مدرسہ "سلطان المدارس" میں سرگرم تعلیم ہوئے۔ (تذکرہ علماء پاکستان، سید عارف حسین نقوی)
آپ کی تحریروں میں مشہور تصنیفات جن کا تذکرہ تاریخ میں ملتا ہے وہ تین تصنیفات نظر آتی ہیں: (1)راز قدرت (2)الحکمۃ المطالعہ شرح شمس البازغہ (3)ترجمہ جامع المسائل۔ پہلی دو کتابیں علم فلسفہ میں اور تیسری کتاب علم فقہ میں ہے۔
مولانا سید جرار رضوی صاحب قبلہ چھولسی
آپ اپنے زمانہ کے بہترین شاعر، مرثیہ گو، تحت خواں اور باصلاحیت عالم دین تھے۔ آپ کی متعدد کاوشیں مراثی کی صورت میں موجود ہیں؛ جن میں سے بعض کتب منظر عام پر بھی آئیں اور کچھ کتابیں زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوپائیں۔ آپ کا شمار چھولس سادات کے باعزت و با وقار افراد میں ہوتا ہے۔
مولانا سید شمیم السبطین رضوی صاحب قبلہ چھولسی

مولانا سید شمشاد احمد رضوی صاحب قبلہ چھولسی

مولانا 1968ء میں سرزمین چھولس سادات پر پیدا ہوئے۔ مولانا کا تعلق چھولس کے مشہور خاندان "رسالہ" سے تھا؛مولانا عسکری محمد رضوی صاحب (Maulana Askari Mohammad) کے والد گرامی "سید اماں محمد رضوی" ٹھیکیدار کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے؛ آپ کی ابتدائی تعلیم چھولس سادات میں ہوئی اس کے بعد سنہ 1982ء میں مدرسہ باب العلم نوگانواں سادات کے لئے عازم سفر ہوئے اور وہاں 2 سال زیر تعلیم رہے، وہاں مولانا شبیہ الحسن عابدی صاحب اور مولانا مظفر حسین صاحب قبلہ جیسے جید اساتذہ کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کئے پھر 1984ء میں مدرسہ جوادیہ بنارس کا قصد کیا اور وہاں ظفر الملت مولانا ظفر الحسن رضوی، شمیم الملت مولانا شمیم الحسن رضوی اور مولانا احمد حسن صاحب قبلہ سے کسب فیض کیا اور وہاں سے فخرالافاضل کی سند لیکر فارغ ہوئے۔ 1990ء میں ایران کا قصد کیا، مشہور یہ ہے کہ آپ پانچ سال تک قم المقدسہ کی سرزمین پر زیور علم و عمل سے آراستہ ہوتے رہے یعنی 1995ءمیں قم المقدسہ سے واپس اپنے وطن آئے۔ ایران سے واپسی پر کریم پورکرناٹک میں مشغول تبلیغ وتدریس رہے اور جوانی کے عالم میں کینسر کی مہلک بیماری کے باعث دار فانی کو الوداع کہکر داربقا کی جانب کوچ کرگئے۔ مولانا کی وفات 2002ء میں ہوئی اور اپنے وطن کی خاک میں سپرد لحد کئے گئے۔
مولانا سید تحسین حیدر رضوی صاحب قبلہ چھولسی

مولانا سید شایان رضوی صاحب قبلہ چھولسی

مولانا سید غضنفر حسین رضوی صاحب قبلہ چھولسی
چھولس کے خاندان رسالہ سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین مولانا سید غضنفر رضوی چھولسی (Maulana Ghazanfar Husain Rizvi) ولد سید محمد علی (چھبن) ہیں؛ البتہ ابھی تک مولانا موصوف کے متعلق معلومات فراہم نہ ہوسکیں انشاء اللہ اپڈیٹ کیا جائے گا.
چھولس کی ایک مشہور شخصیت مولانا سید علی رضا رضوی (Maulana Ali Raza Rizvi Chholsi) ہیں؛ آپ اس زمانہ میں محتاج تعارف نہیں ہیں۔ متعدد یوٹیوب چینلز اور ویبسائٹز پر آپ کی معلومات اور خدمات دستیاب ہیں۔ آپ کا تعلق چھولس سادات کے مشہور خاندان "رسالہ" سے ہے۔ حالانکہ آپ کا اصل وطن چھولس سادات ہے لیکن 1947 کی جنگ کے بعد آپ کے آباؤ اجداد نے پاکستان کی سرزمین پر رہنا پسند کیا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم لاہور میں ہوئی اور پھر فوقانیہ تعلیمات کے حصول کی خاطر عازم ایران ہوئے۔ کافی عرصہ تک سرزمین قم کی برکات سے مستفیض ہوتے رہے اور وہاں سے ایم اے یا بقولے پی ایچ ڈی کرکے واپس پاکستان پہنچے اور حال حاضر میں لندن میں آباد ہیں 2017 عیسوی میں سرزمین چھولس پر بھی تشریف لائے اور پہلی بار اپنی بستی میں امامبارگاہ دیوانخانہ میں خطاب فرمایا۔ آپ حال حاضر کے مشہور و معروف اسکالر، عالم اور خطیب ہیں۔ آپ کے چند اساتذہ کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں: مولانا سید امیر حسین نقوی، شیخ احمدی، شیخ بیت غانم، شیخ معین دقیق، شیخ باقریان، سید احمد اشکوری، شیخ عبد اللہ باوی، سید مرتضی العاملی، سید اعتمادی، شیخ جعفر الھادی، شیخ حمید حائری، آیة الله نور محمدی، شیخ سعید واعظی، شیخ محسن اراکی۔ 1999 میں احکام، عقائد اور علوم قرآن کا درس دیا سنہ 2000ء سے لندن کے حوزہ میں مصروف تدریس ہوئے اور آپ کی خطابت کا آغاز سنہ 1998ء سے ہوا جو حال حاضر میں خطابت کے آسمان پر نظر آتا ہے۔
مولانا سید ذاکر رضا رضوی صاحب قبلہ چھولسی

مولاناعلی عباس حمیدی صاحب قبلہ چھولسی
مولانا علی عباس حمیدی ولد حمید الحسن، چھولس سادات کے علماء میں شمار کئے جاتے ہیں۔ آپ کی ولادت 1974ء میں ہوئی۔ آپ کا سلسلہ تعلیم کچھ اس طرح ہے: جامعۃ المنتظر نوگانواں سادات میں 1986ء سے 1990ء تک مشغول تعلیم رہے۔ باب العلم نوگانواں سادات میں 1990ء سے 1994 تک مشغول تعلیم رہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد تبلیغ دین میں مصروف ہوئے، پلکھنہ ضلع علی گڑھ میں 1994ء سے 1995ء یعنی ایک سال تک تبلیغ دین میں مصروف تھے، اسی سال یعنی 1995ء میں عازم ایران ہوئے؛ دو سال کے بعد ہندوستان واپس آئے اور 1998ء میں شادی کی۔ 1997ء سے 1999ء تک جامعہ اہلبیت دہلی میں مصروف تدریس رہے۔ 1999ء میں دوبارہ عازم ایران ہوئے۔ 2004ء سے 2006ء تک مدرسہ صوفیہ امامیہ نور بخشیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیئے۔2006ء میں پھر ایران چلے گئے اور 2009ء تک مصروف تعلیم رہے۔ 2009ء سے 2011ء تک حوزہ علمیہ امام حسینؑ مظفر نگر میں تدریسی فرائض انجام دیئے۔ 2012ء میں پھر ایران چلے گئےاور ایران سے واپسی پر جامعۃ المصطفیٰ کی نمائندگی (دہلی) ،میں مصروف خدمت ہیں۔ موصوف کو فن شاعری میں کافی مہارت حاصل ہے۔ میدان خطابت میں بھی کافی قدم جمائے ہوئے ہیں، ان کے عشروں کی تفصیل کچھ اس طرح ہے: 1991ء میں ملک جہانگیرآباد میں عشرہ مجالس خطاب کیا۔ 1992ء میں چاندپور میں عشرہ کو خطاب فرمایااسی طرح 1993ء میں بھی وہیں خطاب رہا۔ 1994ء اور 1995ء پلکھنہ ضلع علی گڑھ میں عشرہ خطاب کیا۔ 1997ء میں بھاگلپور بہار میں عشرہ کو خطاب فرمایا۔ 1998ء میں کشمیر پونچھاور منڈی میں عشرہ خطاب کیا۔ 2004ء میں شکارپور، بلند شہر اور اورنگ آباد میں عشروں کو خطاب فرمایا۔ 2005ء میں کالسی گیٹ دہرادون میں عشرہ خطاب کیا۔ 2008ء میں ادے پور راجستھان میں عشرہ خطاب فرمایا۔ 2009ء اور 2010ء میں چلکانہ ضلع سہارنپور میں عشرے خطاب کئے۔ اسی طرح آپ نے 2011ء میں مظفر نگر، 2012ء میں غازی آباد، 2016ء میں حیدری ہال دہلی میں اور 2017ء میں گریٹر نوئیڈا میں عشرے خطاب فرمائے۔

مولانا سید قمر حسنین رضوی صاحب قبلہ چھولسی

قبلہ کے داماد ہیں اور دفتر رہبری ایران کلچر ہاؤس میں ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز ہیں؛ آپ کی ابتدائی تعلیم چھولس سادات میں ہوئی اور اپنی روحانیت کو آگے بڑھانے
کیخاطر سنہ 1995ء میں عازم ایران ہوئے؛ جب آپ ایران سےسنہ 2000 عیسوی میں واپس چھولس سادات آئے تو آپ کی شادی ہوئی اور شادی کے کچھ روز
بعد آپ دوبارہ ایران چلے گئے اور عرصہ دراز قم المقدسہ کی سرزمین پر گزارا؛ وہاں سے ماسٹرز کی ڈگری لیکرسنہ 2007 میں اپنے وطن واپس آئے۔
آپ میدان خطابت میں بھی ایک نامور خطیب کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں اورسرزمین چھولس کے لئے مایہ ناز شخصیت کے حامل ہیں۔ آپ نے تشہیر دین
کی خاطر اوکھلا وہار نئی دہلی میں ایک مدرسہ بھی کھولا ہے جس کا نام جامعۃ الفاطمہ رکھا ہے اور اس میں اپنی قوم کی لڑکیوں کو دینی تعلیمات فراہم کی گئی ہیں۔
مولانا سید غافر حسن رضوی صاحب قبلہ چھولسی

مولانا سید گلزار حیدر رضوی صاحب قبلہ چھولسی
سرزمین چھولس سادات کے ایک عالم دین مولانا سید گلزار حیدر رضوی (Maulana Gulzar Haider) ہیں؛ آپ کے والد مرحوم جناب سید ولی حیدر رضوی ہیں۔ مولانا کی ولادت 7/جولائی 1979ء میں ہوئی۔ ماں کی تربیت کا اثر تھا کہ بچپن سے علم دین کا شوق رہا ؛ ابتدائی تعلیم چھولس سادات کے مکتب امامیہ میں حاصل کی اور وہاں درجہ پنجم امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی اور اسی کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم ماسٹر حسن امام صاحب سے حاصل کرتے رہےنتیجتا ًچھولس سادات کے جونیر ہائی اسکول میں چھٹے درجہ میں داخلہ ہوگیا؛ تعلیمی صلاحیت کو بڑھانے کی غرض سے کلوندا کے انٹر کالج میں داخله لیا اور 1995 ءمیں ہائی اسکول پاس کیا اور 1997ء میں انٹرمیڈیٹ اچھے نمبروں سے پاس کیا، اسی دوران دینی تعلیم جامعہ رضویہ چھولس سادات میں حجت الا سلام مولانا سید شمشاد احمد صاحب قبلہ سے حاصل کی 2000 ءکی ابتدا میں ایران کا سفر کیا اور مختلف اساتذہ سے کسب فیض کیا جن میں قابل ذکر مولانا سلطان حسین صاحب مولانا علی عباد صاحب, مولانا محمد علی مقدادی (ایران) مولانا موسوی خوئی (ایران) ہیں۔ صحت نے ساتھ نہیں دیا جسکی وجہ سے پانچ سال کے بعد وطن کا رخ کیا اور ہندوستان میں آکر لکھنؤ بورڈ سے مولوی منشی عالم کامل فاضل کی اسناد حاصل کیں اور امتیازی نمبر حاصل کئے بریلی یونیور سٹی سے BA اور MA کی ڈگری حاصل کی اور اس میں بھی امتیازی نمبر حاصل کئے سنہ 2008 ءمیں مدرسہ باب العلم نوگانواں میں بحیثیت استاد تقرر ہوا اور فی الحال وہیں مصروف ہیں۔مولنا کے بقول: ایک کتاب بنام " حقیقت بشریت " زیر تالیف ہے۔ مولانا صاحب منبر و محراب بھی ہیں۔ آپ نے متعدد عشرہ محرم کو خطاب کیا ہے جن میں سے گجرات اور بہار کے عشرے قابل ذکر ہیں۔ مولانا شاعری کے اعتبار سے بھی ایک عمدہ شاعر ہیں اور ان کے آثار میں نوحے، مناقب اور غزلیات کا وجود پایا جاتا ہے۔
مولانا سید محمد مقتدیٰ رضوی صاحب قبلہ چھولسی
چھولس کی سرزمین کے ایک عالم دین مولانا محمد مقتدیٰ صاحب چھولسی (Maulana Mohammad Muqtada) ہیں۔ آپ کے والد محترم جناب ضیاء الحسن رضوی صاحب مرحوم تھے۔ آپکی ابتدائی تعلیم چھولس سادات میں ہوئی ؛ آپ نے عربی فارسی بورڈ سے مولوی منشی اور عالم کی اسناد لیں اور سنہ2000ء کی ابتدا میں عازم ایران ہوئے۔ قم المقدسہ کی سرزمین مقدس پر تقریباً پانچ سال کسب فیض کرتے رہے اور اس کے بعد اپنے وطن چھولس سادات واپس آئے اور ترویج و اشاعت دین میں مشغول ہوگئے۔ فی الحال آپ جریلی ضلع بریلی کے امام جمعہ و الجماعت ہیں۔

مولانا سید محمد تفضل رضوی صاحب قبلہ چھولسی
چھولس کی سرزمین کے ایک عالم دین مولانا محمد تفضل رضوی صاحب چھولسی (Maulana Mohammad Tafazzul) ہیں۔ آپ کے والد محترم جناب حکیم اکرم رضوی صاحب ہیں۔ آپ کی ولادت 1982ء میں چھولس سادات کی سرزمین پر ہوئی۔ آپ نے حوزہ علمیہ جامعۃ التبلیغ میں تعلیم حاصل کی، ان کے اساتذہ کے کچھ اسمائے گرامی اس طرح ہیں: مولانا غلام مرتضیٰ صاحب، مولانا حکیم محمد کاظم مرحوم، مولانا بیدار حسین نجفی وغیرہ۔ قم المقدسہ کے اساتذہ میں آیۃ اللہ لنگرودی اور آقائے پایانی قابل ذکر ہیں۔انہوں نے جو اسناد حاصل کی ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں: معلم اردو 2016ء میں، فاضل دینیات 2017ء میں اور بی اے 2018ء میں اسناد حاصل کیں۔ آپ چند سال مدرسہ غفرانمآب لکھنؤ میں مصروف تدریس تھے، حال حاضر میں حیدر آباد میں تبلیغ میں مشغول ہیں۔ آپ ماہنامہ شعاع عمل کے نائب مدیر ہیں۔
مولانا سید جعفر رضا رضوی چھولسی صاحب قبلہ
یوں تو موصوف کا آبائی وطن بہار ہے لیکن چونکہ آپ کا پیدائشی وطن چھولس سادات ہے اسی لئے آپ اپنے نام کے آگے "چھولسی" لکھتے ہیں۔ آپ کے والد محترم جناب ماسٹر حسن امام رضوی صاحب ہیں جنھوں نے ایک عرصہ دراز تک چھولس سادات کے مکتب امامیہ میں خدمات انجام دی ہیں۔ مولانا جعفر صاحب (Maulana Jafar Raza) کی شادی بھی چھولس سادات میں ہوئی ہے۔مولانا کی زوجہ محترمہ، مولانا غضنفر رضوی چھولسی صاحب کی حقیقی بھتیجی ہیں۔ مولنا کا دولت کدہ بھی چھولس ہی میں ہے جس میں ان کی والدہ رہتی
ہیں۔ مولانا اپنی فیملی کے ساتھ دہلی میں مقیم ہیں۔ آپ کا شمار دور حاضر کے مشہور خطباء میں ہوتا ہے اور آپ کا نام دور دور تک مشہور ہوچکا ہے۔ آپ کے نام کے ساتھ چھولس ک نام بھی روز بروز ترقی کررہا ہے۔
مولانا کمال عباس چھولسی صاحب قبلہ چھولسی
مولانا کمال عباس چھولسی (Maualana Kamal Abbas) ولد ظفریاب علی(مٹرو) چھولس سادات کی سرزمین پر پیدا ہوئے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم چھولس میں مولانا شمشاد احمد صاحب کی شاگردی میں ہوئی اور کچھ مدت بعد عازم ایران ہوئے ، چند سال قم المقدسہ کی سرزمین پر رہ کر کسب فیض کیاپھر اپنے وطن واپس آئے، میدان خطابت میں کافی حد تک محنت کی ہے جو ان کی خطابت سے معلوم ہوتا ہے۔ مولانا میدان شاعری کے ایک ماہر شہسوار ہیں جو ان کے اشعار سے صاف صاف جھلکتا ہے؛ مولانا کی شاعری میں قصیدہ، نوحہ، قطعات اور غزل گوئی کا وجود ان کی شاعری کی شفافیت کا منھ بولتا شاہکار ہے۔
مولانا سید تقی محمد رضوی قبلہ چھولسی
مولانا تقی محمد ولد سید شمع محمد رضوی صاحب کا تعلق چھولس کے مشہور
خاندان "خاندان رسالہ" سے ہے۔ مولانا کی ابتدائی تعلیم چھولس سادات میں ہوئی،
اس کے بعد مدرسہ باب العلم نوگانواں سادات میں کسب فیض کیا، پھر عازم ایران ہوئے؛
چند سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے وطن واپس آئے اور دین اسلام کی تبلیغ و ترویج
میں مصروف ہوئے۔ مولانا موصوف حال حاضر میں دوارکا (دہلی) میں مشغول ہیں۔
مولانا سید محمدعسکری رضوی قبلہ (ذیشان) چھولسی
مولانا سید محمد عسکری رضوی (Maualana Mohd Askari) ولد سید اکرام رضا رضوی (شبّو)، چھولس سادات کی سرزمین پر پیدا ہوئے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم چھولس میں ہوئی، فوقانیہ کی غرض سے مولانا قاضی عسکری صاحب کی زیر سرپرستی مدرسہ اہلبیت دہلی میں چند سال تعلیم حاصل کی؛ کچھ وجوہات کی بناپر چھولس واپس آئے اور مولانا سید شمشاد احمد رضوی گوپالپوری صاحب قبلہ (پرنسپل جامعہ رضویہ چھولس سادات) کی شاگردی اختیار کی اور کچھ مدت بعد عازم ایران ہوئے نیز حال حاضر میں قم المقدسہ کی سرزمین پر مصروف تعلیم ہیں۔
مولانا سید اسد رضا رضوی قبلہ چھولسی

مولانا سید مظاہر حسین رضوی قبلہ چھولسی

مولانا سید مظاہر علی رضوی قبلہ چھولسی
مولانا کا نام سید مظاہر علی رضوی (Maualana Mazahir Ali) ولد امین علی (مینو) رضوی ہے، آپ نے علی گڑھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی، کچھ عرصہ پروفیسر کے اعتبار سے علی گڑھ یونیورسٹی میں رہے اور حال حاضر میں شیعہ ڈگری کالج لکھنؤ میں پروفیسر ہیں۔ میدان خطابت میں بھی کافی حد تک دست رس ہے اور منبر پر فضائل و مصائب اہلبیت علیہم السلام اچھے طریقہ سے بیان کرتے ہیں۔ موصوف کا تعلق علمائے چھولس سادات سے ہے۔

مولانا سید عرفان رضا رضوی قبلہ چھولسی

مولانا سید عباس رضا رضوی قبلہ چھولسی

ماشاءاللہ۔۔۔۔۔
ReplyDeleteجزاک اللہ
ReplyDeleteعلامہ سید علی رضا رضوی بن سید وقار حیدر رضوی کا نسب کیا ہے؟ یہ سادات چولس کہ کونسے خانوادہ سے ہے؟
ReplyDeleteیہ "شاہ محمد" والے کہلاتے ہیں۔ انکی ننھیال رسالے میں ہے۔
Delete-مزید معلومات کے لئے معلومات کے لئے شجرہ چھولس سادات "گلستانِ رضویہ" سے استفادہ کریں
https://saghareilm1435.blogspot.com/p/gulsitan-e-rizvia.html?m=0
والسلام