سسکیاں
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
8/3/2016
گوشِ دل کی سماعت کو اپنے ہوش و حواس کھونے کا خطرہ لاحق ہونے لگا...، عجیب قسم کی اداسی ہے...، ہر سمت اداسی ہی اداسی!، جو کسی مظلوم کے شکستہ دل کی عکاسی کر رہی ہے...۔ کیا یہ مدینہ کی وہی گلیاں نہیں ہیں جس کی خاک محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ کی قدم بوسی کرکے فخر و مباہات کیا کرتی تھی!۔
یہ جان لیوا سناٹا کیوں چھایا ہوا ہے؟ کیا مدینے کے رہنے والے سب لوگ خدا کو پیارے ہوگئے! ، نہیں... سب لوگ زندہ ہیں، خدا کو پیارا تو صرف خدا کا پیارا حبیب ہوا ہے۔
لیکن... اس بات کا کیا مطلب ہے کہ جس گھر سے جنازہ اٹھا ہے وہاں سے دھواں اٹھتا نظر آرہا ہے؟ کیا رسول کی پارۂ جگر عرب کی رسومات بھول چکی ہیں کہ جس گھر میں موت ہوجائے اس گھر میں چولہانہیں جلایاجاتا!، جی نہیں! یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے بیت الشرف میں چولہا روشن نہیں ہے... ذراعقل و خرد کو استعمال کرنے کی کوشش کیجئے... کیا ایک چولہا جلنے سے اتنا زیادہ دھواں اٹھے گا کہ آسمان سے باتیں کرسکے...!!۔ ذرا در رسول صلی اللہ علیہ وآلہ پر جاکر ماجرا دیکھنے کی کوشش کیجئے... یہ چولہا روشن نہیں ہے بلکہ اس دروازہ میں آگ لگی ہوئی ہے جس پر ہر روز خدا کا رسولؐ سلام کیا کرتا تھا... ابھی تو پیغمبر خداؐ کی رحلت کو زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا کہ... دروازہ میں آگ... اللہ اکبر... ۔
یہ مدینہ کے سناٹے میں سسکیوں کی صدائیں کیسی...؟ یہ کیسا سوال ہے!، جب آپ کو معلوم ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ دار فانی سے دار باقی کی جانب کوچ کرچکے ہیں تو کیا ایک چہیتی بیٹی کی سسکیاں سنائی نہیں دیں گی!!۔
جی ہاں!باپ کی مصیبت پر نالہ و فریاد کرنا ہر بیٹی کا حق ہوتا ہے لیکن...یہ مرثیہ کیسا:
''بابا تمہارے بعد پڑیں وہ مصیبتیں ... دن پر اگر وہ پڑتیں بدل جاتا رات میں''
آخر اس مرثیہ کا سبب کیا ہے؟ رسولؐ کی چہیتی بیٹی کی زبان پر درد بھرے فقروں کا آنا بے معنی و بے مفہوم نہیں ہے... جب ان مصائب پر تاریخ کی نظر جاتی ہے تو خود تاریخ بھی لہو رونے لگتی ہے... تاریخ کی نظروں کو وہ سانحہ بھلائے نہیں بھولتا جب راتوں کے سناٹوں میں تمام اہالی مدینہ چین و سکون سے آرام کی نیند سورہے تھے لیکن ایک مظلومہ تھی جس کے نالے اہل مدینہ کے آرام میں خلل ڈال رہے تھے، یہ بیٹی کتنی مظلوم تھی کہ باپ کی یادمیں رونے سے بھی لوگوں کی نیند میں خلل پڑ رہا تھا!۔ یہ وہ بی بی ہے جس کے پہلو پر جلتا ہوا دروازہ گرایا گیا، یہ وہ بی بی ہے جس کے شکم میں دنیا کی بہاریں دیکھنے سے قبل ہی ایک بہار، نذر خزاں ہوگئی...۔ یہ وہ مظلوم بی بی ہے کہ جب جلتا ہوا دروازہ پہلو پر گرایا گیا تو اپنے شوہر کو بھی مدد کے لئے نہ پکارسکی بلکہ اپنی کنیز کو مدد کے لئے بلایا: اے فضہ آؤ میری مدد کرو، میرے شکم میں میرا محسن شہید ہوگیا... یہ وہ مظلوم بی بی ہے جس نے اپنے غیور شوہر کے گلے میں ریسمانِ ظلم دیکھی!۔ کیا اس تناظر میں اس بی بی کو اتنا حق بھی حاصل نہیں کہ وہ اپنی سسکیوں سے قصر باطل کولرزا سکے!!۔ کیا کوئی انسان اس مظلومہ کو دیکھ کر یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ شہزادی اپنی حیات کی اٹھارہویں بہار دیکھ رہی ہے! کیا اٹھارہ سال کی نوجوان لڑکی ایسی ہی ہوتی ہے... کمر خمیدہ ہوچکی ہے... سر کے بال سفید ہوچکے ہیں... ہاتھوں میں عصا لیکر چلتی ہے... کیا اب بھی آپ یہی کہیں گے کہ یہ بی بی سسکیاں کیوں لے رہی ہے...!!۔ ہر معاشرہ کا یہ دستور ہوتا ہے کہ مرنے والے کے گھر تعزیت پیش کرنے کو آتے ہیں لیکن یہ معاشرہ کیسا ہے... کیا حضور اکرمؐ نے اپنی حیات میں حکم خداوندی کے تحت یہ نہیں فرمایا کہ میرا اجر رسالت یہی ہے کہ میرے قرابتداروں سے مودت اختیار کرو! کیا اجر رسالت کی ادائیگی کا یہی طریقہ تھا جو رسولؐ کی رحلت کے بعد اپنایا گیا!۔ یہ ایسے حقائق ہیں جن سے کوئی مورخ آنکھیں نہیں چرا سکتا کیونکہ تاریخ اس کی آنکھیں نکال لے گی...۔ یہ مصائب کے تمام پہلو تاریخ میں ایک مظلومہ کی مظلومی کو ببانگ دہل بیان کرتے ہیں جن کی بنا پر یہ سسکیاں کوئی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت پر مشتمل وہ اظہار غم ہے جو عالم بشریت کو سوچنے پر مجبور کردے!۔ ان سسکیوں نے تو تاریخ کو بھی سسکیاں لینے پر مجبور کردیا... ان سسکیوں کا تانتا اس وقت تک بندھا رہا جب تک روح قفس عنصری سے پرواز نہ کرگئی...۔ یکبارگی تسبیح و تہلیل کی آواز بند ہوئی، اسمیٰ نے چیخ مارکر گریہ کرنا چاہا لیکن حالات کے پیش نظر آواز گلے میں گھٹ کر رہ گئی... آخر اس مظلومہ نے کتنے ستم سہے تھے کہ غسل وکفن اور دفن کی وصیت بھی کی تو رات کے لئے... یاعلی مجھے رات میں غسل دیجئے گا، یاعلی مجھے رات میں کفن دیجئے گا، یاعلی مجھے رات میں دفن کیجئے گا... ''۔ زبان حال سے شہزادیؑ اپنے شوہرِ نامدار سے وصیت کررہی تھیں:
"برما رہی ہیں قلب کو ان کی وصیتیں ...غسل وکفن ہو میرا اندھیروں کے سائے میں ''
وصیت پر عمل کرتے ہوئے علیؑ نے جنازہ کو غسل دینا چاہا تو علیؑ جیسا صابر بھی چیخ مارکر رودیا! اس صابر نے ایسا کیا دیکھ لیا کہ دامن صبر چھوٹ گیا! پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا!! مزاج شناسِ امامت ''سلمان فارسی'' ہاتھوں کو جوڑکر آگے بڑھے... مولا!... اس چیخ کا سبب...؟ مولا نے آنسو صاف کرتے ہوئے جواب دیا: ''سلمان!... بنت رسولؐ بہت صابرہ تھی، اپنے شکستہ پہلو کو لے کر رسولؐ سے جا ملی لیکن مجھ سے اس درد کا اظہار نہیں کیا...''۔ جس جنازہ میں پورے مدینہ کو آہ وفغاں کے ساتھ جانا چاہئے تھا اس جنازہ میں انگشت شمار افراد زمانہ کی بے رخی بیان کررہے ہیں اور اس تاریخ کا تقاضہ ہے کہ فاطمہ بنت رسولؐ کی سسکیوں کے ساتھ زمانے کو بھی سسکیاں بھرنی چاہئیں۔
منابع و حوالہ جات:
1۔سوگنامۂ آل محمدؐ۔
٢۔منتہیٰ الآمال۔
٣۔شرح نہج البلاغہ: ابن ابی الحدید معتزلی۔
٤۔الملل و النحل: شہرستانی۔
٥۔الامامة والخلافة: مقاتل بن عطیہ۔
٦۔الاستیعاب: قرطبی۔
٧۔المصنف: ابن ابی شیبہ۔
٨۔اثبات الوصیة:مسعودی۔
٩۔عقد الفرید: ابن عبد ربہ۔
١٠۔بحار الانوار: علامہ مجلسی۔
١١۔تاریخ الامم و الملوک: محمد بن جریر طبری۔
١٢۔انساب الاشراف: بلاذری۔
No comments:
Post a Comment