Tuesday 18 December 2018

Biography (Zindagi Nama) of Maulana Syed Zakir Raza Rizvi Sb. Chhaulsi

زندگی نامہ مولانا سید ذاکر رضا رضوی صاحب قبلہ چھولسی

مولانا سید ذاکر رضا رضوی چھولسی صاحب قبلہ، دور حاضر کے باصلاحیت علمائے اعلام میں سے ایک ہیں۔ آپ مذہبی ادارہ پیام اسلام فاؤنڈیشن کے بانی و مؤسس ہیں۔


اجمالی تعارف

مولانا سید ذاکر رضا چھولسی کا آبائی وطن ایران کا شہر سبزوار تھا، سبزوار سے آپ کے آباؤ اجداد ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے؛ سید علی سبزواری کے بیٹے سید علی اصغر سبزواری جن کا مزار چھولس سادات کی کربلا میں واقع ہے، یہی سادات چھولس کے مورث اعلیٰ شمار کئے جاتے ہیں۔
آپ کی ولادت 1 دسمبر 1970 ء میں چھولس سادات کے ایک متدین گھرانہ میں ہوئی ۔مولانا ابتدائے زندگی سے آج تک تبلیغ و تشہیر درس انسانیت میں مشغول ہیں۔ آپ مولانا سید غافر رضوی چھولسی صاحب قبلہ کے برادر حقیقی ہیں اور آپ کے والد گرامی قدر کا اسم شریف جناب سید احسن رضا رضوی صاحب ہے۔ مولانا کی پیدائش کے وقت چھولس سادات کا ضلع بلند شہر تھا لیکن حال حاضر میں اس بستی کا ضلع گوتم بدھ نگر (نوئیڈا) ہے جس کو خلاصہ کے طور پر جی بی نگر بھی کہا جاتا ہے۔ مولانا نے تشہیر انسانیت کی خاطر پیام اسلام فاؤنڈیشن نامی وبلاگ، یوٹیوب چینل اور فیس بک کا پیج بھی بنایا ہے اور اس کے علاوہ مسجد و منبر بھی مولانا کے لئے تشہیر انسانیت کا وسیلہ قرار پائے ہوئے ہیں۔[1] [2] [3] [4]

تعلیمی دور

مولانا نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن چھولس سادات میں ہی حاصل کی اور کلاس پنجم تک وہیں تحصیل علم میں مشغول رہے آپ نےسنہ 1983 ء میں کلاس پنجم کی سند ممتاز درجہ کے ساتھ حاصل کی ۔  پھر جولائی سنہ1983ء میں صنف روحانیت میں اضافہ کی خاطر ناصریہ عربی کالج جونپور کے لئے عازم سفر ہوئے؛ آپ نے اس مدرسہ میں دو سال تعلیم حاصل کی اور سنہ 1985ء میں جامعہ باب العلم نوگانواں سادات کا عزم کیا۔سنہ  1985ء سے سنہ 1994 ء تک باب العلم نوگانواں سادات میں زیرتعلیم رہے۔ باب العلم میں رہتے ہوئے ہی سنہ 1990ء میں آپ نے اردو ایم اے کا فارم بھرا اور آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔
آپ نے جامعہ اردو علی گڑھ سے اس کی تمام ڈگریاں حاصل کیں یعنی ادیب سے لیکر معلم تک کی تمام اسناد آپ کی صلاحیت کا منھ بولتا شاہکار ہیں؛ اسی طرح الہ آباد عربی فارسی بورڈ سے آپ نے منشی سے لیکر فاضل تک کی اسناد حاصل کیں۔

تبلیغی سرگرمیاں

مولانا ذاکر رضا رضوی صاحب اپنے اعتبار سے اپنی تعلیمات مکمل کرنے کے بعد ترویج انسانیت اور دین انسانیت کی تشہیر میں مشغول ہوگئے۔ سنہ 1995ء سے سنہ 1998ء تک قصبہ بڈولی سادات ضلع مظفر نگر میں خدمت خلق انجام دی۔ سنہ 1999ء سے سنہ 2000ء تک خورجہ میں سرگرم عمل رہے۔ سنہ 2000ء سے  سنہ 2017ء تک شمس آباد ضلع فرخ آباد صوبہ یوپی میں امام جمعہ و الجماعت اور ایک برجستہ خطیب کی حیثیت سے پہچانے جاتے رہے۔ اسی عرصہ میں آپ نے سرکاری ٹیچنگ میں درخواست دی اور اختبار و مصاحبہ نیز انٹرویو وغیرہ کے بعد آپ کو سرکاری ٹیچنگ میں قبول کرلیا گیا اور آپ نے سنہ 2017ء میں اردو سرکاری ٹیچنگ کو جوائن کیا۔ آپ کی سروس فتح گڑھ ضلع فرخ آباد میں تعیین ہوئی۔ آپ فتح گڑھ میں سرکاری ٹیچر کے علاوہ ایک امام جماعت اور برجستہ خطیب کے عنوان سے بھی پہچانے جاتے ہیں یعنی سرکاری ٹیچنگ کے باوجود خود فتح گڑھ کی داخلی امامت موصوف نے اپنے ہی ذمہ لے رکھی ہے۔
شاعری و سخنوری

مولانا کا شمار اپنے زمانے کے بہترین شاعر وں میں ہوتا ہے۔۔آپ نے بے شمار نوحہ جات، مراثی  قصائد، فضائل  و مناقب اور بہت سی  نظمیں،  تحریر کی ہیں۔
آپ نے ویسے تو بہت سے نوجات لکھے مگر نوحہ "بابا علی علی" بہت مقبول ہوا۔ جسے انجمن عباسیہ (عباس نگر چھولس سادات) کے نوحہ خواں "مرحوم عروج چھولسی"  نے اپنی بہترین آواز میں پڑھا تھا۔ آج کل یہ نوحہ مرحوم کی آواز میں یوٹیوب پر بھی دستیاب ہے۔
موصوف  کے بہت سے اشعار ہمیں حالات حاضرہ پر بھی ملتے ہیں جن میں سے چار مصرعے آیت اللہ باقر النمر کی شہادت پر آپ نے کہے تھے۔۔۔۔
          "حسین،  لے گئے جنت میں  انکو  اے ذاکرؔ
          شہید جتنے  ہوئے ہیں جناب نمر کے ساتھ
          جو ظلم  کرتے ہیں  مظلوم پر  یزیدی  ہیں
          بروز حشر وہ ہونگے یزید و شمر کے ساتھ"
    آپ نے بہت سی دعاؤں  کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے جس میں سے ایک ترجمہ "دعائے توسل منظوم" ہے؛ انشاء اللہ بہت جلد منظر عام پر آنے والا ہے۔


ادارہ پیام اسلام اور مولانا

 اس جدید ترین ٹیکنالوجی کے دور میں نوجوان نسل دین اسلام سے دور ہو رہی ہے۔ اسی کو مد نظر رکھتےہوئے مولانا نے مارچ 2014 میں  ادارہ "پیام اسلام فاؤنڈیشن"  کی بنیاد ڈالی۔ جس کے ذریعے تعلیماتِ اہلبیت کو مثبت انداز میں نوجوان نسل کے لئے با آسانی فراہم کیا جائے۔ 

اسی لئے مولانا نے اس ادارہ کے ذریعہ انٹر نیٹ سہولیات افراہم کیں  تاکہ دنیا کے سامنے اسلام کا حقیقی چہرہ پیش کیا جاسکے اور گمراہ فکر افراد کو راہ نجات پر گامزن کیا جاسکے حالانکہ یہ کام ہر انسان کا فرض ہے لیکن ہر انسان اس فرض کو ادا نہیں کرپاتا ہے البتہ جو شخص اس ذمہ داری کو محسوس کرلیتا ہے وہ اس راہ میں قدم اٹھاتا ہے اور پیام اسلام فاؤنڈیشن بھی اسی کی ایک مثال ہے جو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔
حوالہ جات

No comments:

Post a Comment

Featured Post

PAYAM E ISLAM Foundation is now available on YOUTUBE...

Salamun alaikum... The insitute PAYAM E ISLAM Foundation is now available serving ISLAM on YOUTUBE... The main objectives are:- 💡Deep ...

Popular Posts